آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے حالیہ سیلاب کی ہولناکی کا مشاہدہ کرنے کے بعدیہ تجویز پیش کی ہے کہ اس قیامت خیزی سے بچنے اور آبی فوائد سمیٹنے کے لیے نئے ڈیموں کی تعمیر ایک اشد ضرورت ہے۔ آرمی چیف نے بڑا صائب مشورہ پیش کیا ہے اور قوم کے تمام طبقات کو اس پر غور کر نا چاہیے ۔ہمارے ملک میں سیلاب اب معمول کی بات ہو گئے ہیں ، ہر دس بارہ برس بعد سیلاب کی قیامت ملک کے بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے جس سے خلق خدا بے حد متاثر ہوتی ہے اور ملکی معیشت کو اربوں کا دھچکا لگتا ہے ۔ بد قسمتی سے پاکستان میں سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے بہت کم ڈیم ہیں بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ تربیلااور منگلا کے بعد ہم نے کوئی بڑا ڈیم نہیں بنایا ۔ پچھلی صدی کے پانچویں عشرے میں کالاباغ ڈیم کی منصوبہ بندی کی گئی مگر پچھلے چھے عشروں میں اس کو سیاست کی بھینٹ چڑھایا گیا ۔ پاکستان کی تین صوبائی اسمبلیاں اس ڈیم کے خلاف قراردادیں منظور کر چکی ہیں۔ واحد پنجاب اسمبلی ہے جس نے اس ڈیم کے حق میں قراردادیں منظور کی ہیں۔ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے سیاستدانوں نے اس ڈیم کی مخالفت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور یہی وہ تین صوبے ہیں جہاں بار بار سیلاب قیامت ڈھاتا ہے۔
خیبر پختونخوا کے سیاستدان کالاباغ ڈیم کے اس لیے خلاف ہیں کہ اس ڈیم سے انھیں نوشہرہ کے ڈوب جانے کا خدشہ لاحق ہے جبکہ عملی طور پر ہم نے دیکھا ہے کہ کالاباغ ڈیم تو نہیں بنا مگر نوشہرہ 2010ء اور حالیہ سیلاب میں ڈوب گیا ۔سندھ کے سیاستدانوں کی عجیب منطق ہے،ان کا کہنا ہے کہ سیلاب کا تازہ پانی بحیرہ عرب میں گرے تو یہ آبی حیات کے لیے بے حد مفید ہے۔ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ سندھ کے سیاستدانوں کو آبی حیات کی تو بہت فکر ہے لیکن زمینی مخلوق سیلاب میں برباد ہو کر رہ جائے ،انھیں اس کی چنداں فکر نہیں۔حالیہ سیلاب میں سندھ کا بڑا حصہ غرق ہو چکا ہے ،لاکھوں گھر مسمار ہو چکے ہیں، آبادیوں کی آبادیاں ڈوب گئی ہیں۔ سندھ کی دو جھیلیں ایک دوسرے سے ایک سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں ،ان کو سیلاب نے آپس میں ملا دیا ہے اور ان کا درمیانی علاقہ ملیامیٹ ہو چکا ہے ۔فصلیں اجڑ گئیں ،کھیت برباد ہوگئے ،مویشی ہلاک ہوگئے،علاقے میں قحط کی کیفیت ہے ،بے سروسامانی کا عالم ہے ،وبائی بیماریاں پھوٹ پڑی ہیں اور انسانیت کو ایک سنگین امتحان درپیش ہے ۔
اس قیامت خیزی کے باوجود سندھ کے سیاستدان کالاباغ ڈیم بننے کے حق میں نہیں ہیں۔ اسی طرح صوبہ خیبر پختونخوا کا حال ہے ،ان کا کہنا ہے کہ کالاباغ ڈیم بنا تو ہم اسے بم سے اڑا دیں گے ۔ کوئی دھمکی دیتا ہے کہ کالاباغ ڈیم کو بلا ٹکٹ بحیرہ عرب میں پھینک دیں گے مگر ان کی بلا سے نوشہرہ ڈوب جائے، ڈیرہ اسمٰعیل خان کے وسیع علاقے غرق آب ہو جائیں ،سوات کا حسن تندو تیز سیلاب کی لہریں اجاڑ دیں ،ان نقصانات سے انھیں کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی۔ بلوچستان کے سیاستدان تو ناحق کالاباغ ڈیم کی مخالفت کرتے ہیں مگر ہم نے حالیہ طوفانی بارشوں میں دیکھا کہ کس طرح سیلابی ریلوں نے اس صوبے کو تلپٹ کر کے رکھ دیا ۔ سیلاب سے پنجاب کا صوبہ بھی محفوظ نہیں رہ سکا۔ ڈی جی خان، راجن پور اور جنوبی پنجاب کے دیگر علاقے بربادی کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ ایسی قیامت کا سماں ہے کہ اسے دیکھ کر انسانی دل ودماغ مائوف ہو جاتا ہے۔ساری دنیا میں ڈیم تعمیر کر نا ایک قومی ضرورت سمجھا جاتا ہے۔ مصر کے اسوان ڈیم سے بھی بڑا حبشہ میں ایک ڈیم تعمیر کیا جا رہا ہے۔ چین میں چھوٹے بڑے ہزاروں ڈیم ہیں۔ بھارت بھی ڈیموں میں پیچھے نہیں رہا۔ اس نے تو راوی اور ستلج پر اتنے ڈیم بنا لیے ہیںکہ پاکستان کو ان دریائوں کی ایک بوند میسر نہیں آتی۔ پاکستان میں کالاباغ تنازع کوئی انوکھی بات نہیں۔ دریائی پانی پر تنازعات تاریخ کا حصہ ہیں ۔پانی کے مسئلے پر قوموں کے درمیان بڑی بڑی جنگیں چھڑتی رہی ہیں۔ بھارت میں دریائے کاویری کے پانی کی تقسیم پر کئی ریاستیں آپس میں جھگڑ رہی ہیں ۔دریائے ڈینیوب یورپ کے درجنوں ممالک سے گزرتا ہے اور یہ ملک اس دریا کے پانی پر مدت ہا مدت تک جھگڑوں کا شکار رہے ہیں ۔دریا ئے نیل کے پانی پر متعدد افریقی اور عرب ممالک آپس میں الجھے رہتے ہیں لیکن زندہ اور باشعور قومیں دریائی پانی کی تقسیم کے جھگڑوں کا قابل عمل حل تلاش کر لیتی ہیں مگر پاکستان ایسا بد قسمت ملک ہے جو نہ تو کالاباغ ڈیم کی کج بحثی کی دلدل سے نجات پا سکا ہے نہ کوئی دوسرا بڑا آبی ڈیم بنانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے ۔
پچھلے بیس برس سے دیامیر بھاشا ڈیم کی بحث فیشن کے طور پر کی جاتی ہے ۔ہمارے ایک سابق چیف جسٹس تو ڈیم فنڈ کے نام سے اربوں روپے اکٹھے کرکے رخصت ہو چکے۔ قوم کو اس فنڈ کے بارے میں کچھ اتا پتا نہیں۔ بھارت کو اس ڈیم سے اللہ واسطے کا بیر ہے۔ وہ شور مچاتا ہے کہ پاکستان کشمیر کے متنازعہ علاقے میں ڈیم تعمیر نہیں کر سکتا جبکہ خود اس نے مقبوضہ کشمیر کی چھوٹی سی وادی میں درجنوں ڈیم تعمیر کیے ہیں۔ وہ دریائے جہلم کے پانی کا رخ بھی موڑنے کی کوشش میں مصروف ہے ۔بھارت کو کشمیر کی متنازع حیثیت کا بھی کوئی خیال نہیں۔بہر حال پاکستان کو اپنے مفاد میں فیصلے کرنے ہیں اور اب اگر دیامیر بھاشا ڈیم کا فیصلہ ہو چکاہے تو ہمیں اس پر یکسو ہو جانا چاہیے۔
عالمی مالیاتی ادارے اس ڈیم کی تعمیر کے لیے فنڈنگ پر رضا مندی کا اظہار کر چکے ہیں۔ پاکستان کا فرض یہ ہے کہ وہ اس ڈیم کی تعمیر میں مصروف چینی ماہرین کی سکیورٹی یقینی بنائے ۔ سی پیک معاہدے میں یہ نکتہ شامل کیا گیا تھا کہ پاکستان چینی کارکنو ں کی حفاظت کے لیے ایک نیا فوجی ڈویژن بھرتی کریگا ۔ اس فوجی ڈویژن کی تشکیل بھی بلا تاخیر ہونی چاہیے۔ نئے ڈیم صرف سیلاب کی روک تھام کے لیے ہی نہیں بلکہ آب پاشی کے لیے بھی ناگزیر ہیں۔ ان ڈیموں سے اس قدر سستی بجلی پیدا ہو سکتی ہے کہ لوگ تھرمل منصوبوں کی وجہ سے مہنگی ترین بجلی کے ہوشربابلوں سے محفوظ ہوسکتے ہیں ۔ اس کے لیے ایک بھاشا ڈیم نہیں ،ہمیں سینکڑوں چھوٹے بڑے ڈیم بنانے کی منصوبہ بندی فی الفورشروع کر دینی چاہیے۔