اسلام آباد(خبر نگار)سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قومی صحت نے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز)ہسپتال کے کارڈیالوجی کی ایمرجنسی وارڈ میں بستروں کی تعداد بڑھانے سنٹرل کولنگ نظام بالخصوص چلڈرن وارڈ میں سہولیات اور صفائی کے انتظامات کو بہتر کرنے کے لئے اقدامات کی ضرورت پر زور دیا ہے، کمیٹی نے پمز میں گردے کا ٹرانسپلانٹ شروع کرنے کے حوالے سے تجاویز طلب کر لیں جبکہ اینڈو سکوپی کے نئے شعبہ کا انتظام و انصرام آلات نصب کرنے والوں کے حوالے کرنے پر برہمی کا اظہار کیا، پمز انتظامیہ نے قائمہ کمیٹی کو مختلف شعبوں کا دورہ کرایا اور بریفننگ دی۔ پیر کو سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قومی صحت کے چیئرمین ڈاکٹر محمد ہمایوں مہمند کی قیادت میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز ((پمز)ہسپتال کا دورہ کیا۔ کمیٹی اراکین نے پمز ہسپتال کے شعبہ کارڈیالوجی کی ایمرجنسی وارڈ کا بھی دورہ کیا اس موقع پر پمز ہسپتال کے ڈائریکٹر خالد مسعود نے کمیٹی ممبران کو بتایا کہ کارڈیک ایمرجنسی میں صرف دس بیڈز مختص ہیں جو کہ اسلام آباد کی آبادی اور دیگر علاقوں سے آنے والوں کے لئے ناکافی ہیں، تاہم دو سو بیڈز کی ایمرجنسی کا منصوبہ زیر تکمیل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایمرجنسی کو بہتر انداز میں چلا رہے ہیں مگر آبادی کے اعتبار سے کم جگہ ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ہمیں محسوس ہو رہا ہے کہ کارڈیک ایمرجنسی میں موجود بیڈز کی تعداد کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ڈینگی مریضوں کی نگہداشت کے حوالے سے ڈاکٹر خالد نے قائمہ کمیٹی کو آگاہ کیا کہ اس وقت ڈینگی کے56مریض پمز میں زیر علاج ہیں جبکہ ڈینگی کے مریضوں کے لئے64بیڈ مختص کئے ہوئے ہیں۔ ڈین اور چیف ایگزیکٹو پمز ڈاکٹر رضوان تاج بھی اس موقع پر موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ پمز ہسپتال میں گردے کا ٹرانسپلانٹ کرنا چاہتے ہیں لیکن پمز میں گردے ٹرانسپلانٹ شروع کرنے کے لیے جگہ کی کمی کا سامنا ہے۔ کمیٹی نے پمز میں گردے کا ٹرانسپلانٹ شروع کرنے کے حوالے سے تجاویز طلب کر لیں۔ چیئرمین کمیٹی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ پمز ہسپتال میں1992 کے بعد کوئی واضح ترقیاتی کام نہیں ہوا، پمز کے گریجویٹ سٹوڈنٹس نجی رہائش گاہوں میں رہ رہے ہیں ۔ کمیٹی اراکین نے کہا کہ آپ وی آئی پی وارڈ میں لے کر جا رہے ہیں ۔ سینیٹر فوزیہ ارشد نے کہا کہ پبلک وارڈ میں لے کر جائیں ، پولی کلینک جانے کا اتفاق ہوا وہاں،آپریشن تھیٹر کے برا حال تھا۔ انہوں نے کہا کہ پمز کے چلڈرن وارڈ میں اے سی کام نہیں کر رہا، درجہ حرارت زیادہ ہے، ہسپتال کا سینٹرل اے سی کام نہیں کر رہا۔ ہسپتال انتظامیہ نے آگاہ کیا کہ یہ سسٹم بہت پرانا ہے، مریضوں کا رش ہونے کی وجہ سے سپلٹ یونٹ بھی لگائے ہیں لیکن مزید لگانے کی ضرورت ہے جس کے لئے پمز ہسپتال کو وسائل کی کمی کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کے ہسپتال میں صفائی مناسب نہیں۔سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ انڈو سکوپی کا شعبہ40 کروڑ کی لاگت سے بنایا گیا ہے مگر چلانے کے لئے عملہ نہیں، ہسپتال انتظامیہ انڈو سکوپی کا شعبہ انہی لوگوں سے چلوا رہے ہیں جنہوں نے یہ آلات نصب کئے ہیں، ہمیں عملہ تعینات کرنے کی اجازت دی جائے ۔قائمہ کمیٹی نے رکن کمیٹی بہرا مند تنگی کے کہنے پر پمز کا دورہ کیا اور کہا کہ کمیٹی ہر تین ماہ بعد پمز ہسپتال کا دورہ کرے گی۔ چیئرمین کمیٹی کو ڈین اور چیف ایگزیکٹو پمز ڈاکٹر رضوان تاج نے آگاہ کیا کہ بہت جلد مختلف شعبوں میں مزید700 بیڈز کا اضافہ ہو جائے گا۔ انہوںنے کہا کہ اس وقت پاکستان میں9 لاکھ نرسز کی کمی کا سامنا ہے، پاکستان سے بڑی تعداد میں نرسز بیرون ممالک جا رہی ہیں، پمز ہسپتال میں بھی نرسز کی کمی کا سامنا ہے، ڈاکٹر رضوان نے کہا کہ پمز ہسپتال میں ڈینٹل کے بہت کم پیسے لئے جاتے ہیں جس پر قائمہ کمیٹی نے کہا کہ آپ کی کتابوں میں سب چیزیں اچھی ہیں لیکن حقیت بر عکس ہے۔ سینیٹر فوزیہ ارشد نے کہا کہ یہاں کوئی مریض آتا ہے تو اسے کمرا تک نہیں دیا جاتا ۔ پمز انتظامیہ کی طرف سے بریفننگ اور ارکین کمیٹی کے اٹھائے گئے سوالات کے جواب میں کہا کہ ہمارے پاس مجموعی بیڈز کی تعداد 1322 ہے، ہمارے پاس بڑی تعداد میں مریض آتے ہیں، پمز کے شعبہ ڈینٹسٹ میں آپریشن کی سہولت عملہ تعیناتی کے باعث شروع نہیں ہو سکی، حکام ڈینٹسٹ کا شعبہ صرف آئوٹ ڈور مریضوں کو دیکھا جاتا ہے، حکام پمز ہسپتال میں 23 اینتھی سیسٹس کی اسامیاں خالی ہیں، آسامیوں کا اشتہار دیا تو صرف تین لوگ آئے، پمز کی ایمرجنسی پر بہت زیادہ پریشر ہے، 160 بیڈ پر مشتمل نئی ایمرجنسی وارڈ بنائی جا رہی ہے ، ایمرجنسی کے لئے تین اسپیشلسٹ تعینات کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں ، موجودہ مہنگائی میں ڈاکٹروں کے تنخواہ پیکج میں بہتری کی ضرورت ہے ، پمز میں گزشتہ 20 سال چھوٹے عملے کے علاوہ کوئی تعیناتی نہیں ہوئی ، ڈاکٹر رضوان نے کہا کہ پمز ہسپتال میں 1300 اسامیاں خالی ہیں، گزشتہ سال 300 سے زائد افراد ضروری ایمرجنسی سروسز میں تعینات کئے ، پمز میں ڈاکٹروں سمیت دیگر عملے کی 780 اسامیاں خالی ہیں ، بہت سارے شعبوں کے ڈاکٹرز اور سٹاف ہی موجود نہیں ہے ، جب ہسپتال میں780 اسامیاں خالی ہیں تو بہتری کہاں سے آئے گی