کراچی ( بزنس ررپورٹر ) صدر ایف پی سی سی آئی عرفان اقبال شیخ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ حکومت اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو اس حقیقت کا فوری طور پر نوٹس لینا چاہیے کہ پاکستان روپے کی قدر میں کمی کے ایک اورگھن چکرمیں داخل ہو گیا ہے اور گرتی ہوئی رو پے کی قدر ختم ہونے کا نام نہی لے رہی؛کیونکہ یہ آج کے روز تک مسلسل ساتویں سیشن میں گرا ہے۔ عرفان اقبال شیخ نے وضاحت کی کہ جب کرنسی کی قدر کم ہونا شروع ہو تی ہے تو مینوفیکچررز اور کمر شل امپورٹرز کے تمام کنٹریکٹ اور ان سے منسلک ذمہ داریاں پوری کرنا مشکل ہوتا جا تا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے کے صرف پانچ سیشنز میں روپے کی قدر میں 4 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ حکومت اس واضح طور پر عوام دشمن، کاروبار مخالف، برآمدات مخالف اور ترقی مخالف رجحان پر کوئی کارروائی نا کرنے پر بضدکیوں ہے۔صدرایف پی سی سی آئی نے بتایا کہ انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ کے درمیان فرق 8سے 10روپے تک ہو گیا ہے؛ جس کی وجوہات قیاس آرائیوں پر مبنی ٹر یڈنگ، روپے کی قدر میں مزید کمی کی افواہیں اور اسٹیٹ بینک کی طرف سے پالیسی ٹولز کا نا استعمال کیا جانا ہے۔ انہوں نے حکومت سے یہ بھی سوال کیا ہے کہ بتایا جائے کہ وہ کس طرح اور کیونکر افراط زر کے آنے والے نا گزیر اور تباہ کن دباؤ کو سنبھال سکے گی اور عوام کے لیے قابل برداشت بنا سکے گی۔ عرفان اقبال شیخ نے کہا کہ یہ ایک اوپن سیکرٹ ہے کہ کمرشل بینک بھی قیاس آرائیوں پر مبنی ڈالر ٹر یڈنگ اور نا جائز منافع کما نے میں ملوث ہیں۔ انہوں نے اسٹیٹ بینک سے کمرشل بینکوں پر سخت ریگولیٹر ی کنٹرول قائم کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور زور دیا ہے کہ اسے فوری طور پر حرکت میں آنا چاہیے۔صدرایف پی سی سی آئی نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ پاکستان کی کاروباری، صنعتی اور تاجر برادری کو پوری امیدتھی کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے بعد روپے کی قدر مستحکم ہو جائے گی اور ساتویں اور آٹھویں جائزے کی مشترکہ قسط یعنی 1.17 ارب ڈالر پاکستان کو وصول ہو جائیں گے؛ تاہم مذکورہ قسطوں کی وصولی کے باوجود روپیہ ابھی تک مستحکم نہیں ہوسکا۔ عرفان اقبال شیخ نے مزید کہا کہ ماہرین معیشت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی حقیقی موثر شرح مبادلہ (REER) ایک ڈالر کے لیے 200 روپے سے کم بنتی ہے اور تمام عملی وجوہات کی بنا پرموجودہ کمی قیاس آرائیوں پر مبنی لین دین، ریگولیٹری نگرانی کی کمی اور فاریکس مارکیٹ کی مس مینجمنٹ کا نتیجہ ہے۔ عرفان اقبال شیخ نے ایف پی سی سی آئی کے پہلے بھی کیے گئے مطالبے کا اعادہ کیا ہے کہ اگر حکومت اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان روپے کی گرتی ہوئی قدر پر قابو پانے میں ایک بار پھر ناکام رہتے ہیں تو ملک کو موجودہ آزادانہ فلوٹنگ ایکسچینج ریٹ میکانزم کی بجائے ایک فکسڈ ایکسچینج ریٹ نظام کی طرف لوٹنے کی ضرورت ہے۔
ایف پی سی سی آئی