دلّی والوں کا جشن اور پٹے پٹائے

دھلی میں جی 20 ممالک کی سربراہی کانفرنس اور اقتصادی کاریڈور کے معاہدے سے بھارت میں بہت خوشی ہے لیکن جتنی خوشی بھارت نے منائی، اس سے زیادہ ”پٹی پٹائی پارٹی نے منائی۔ سوشل میڈیا پر ایک ایسا طوفان مسرت برپا ہے کہ ایسا تو تب بھی برپا نہیں ہوا تھا جب آر ٹی سسٹم بٹھا کر عمران خان کو ”اکثریت“ دلوائی گئی تھی۔ سینکڑوں ٹویپ (اب ایکس نام ہے تو کیا کہیں گے، ایکس۔ ویپ؟‘ لگے ہوئے ہیں۔ اظہار مسرت کے ساتھ ساتھ پاکستان کو طعنوں، کوسنوں کا بھی سامناہے۔ جگتیں ماری جا رہی ہیں، اتنی جگتیں ایجاد کی جا رہی ہیں۔ پٹی پٹائی پارٹی کے ولاگر ایک سے بڑھ کر ایک کے مصداق پاکستان کو ملّا ہیاں سنا رہے ہیں کہ لو، اب بھگتو، سب بھارت کے ساتھ ہیں، تمہارے ساتھ کون ہے، سناﺅحافظ صاحب، اب کیا حال ہے۔ ایک جگت مارتا ہے، دوسرا اس پر گرہ باندھتا ہے یوں کہ
ہاتھ لا استاد، کیوں کیسی رہی 
صدیوں کا نسل در نسل والا غبار پھوٹ رہا ہے۔ اب کوئی کہے کہ میاں، اس ماجرے سے ہمیں یہ فائد ہ تو ہوا کہ ”کچھ لوگ“ پہچانے گئے تو یہ کچھ لوگ برا مان جائیں گے۔ 
_________
اقتصادی کاریڈور کا لطیفہ سن لیجئے، لطیفہ کیا، سچ مچ کی بات ہے۔ بھارت میں کسی” شرپسند عنصر“ نے یہ ہوائی چھوڑی کہ کاریڈور کے تحت ممبئی سے دبئی تک زیر آب سرنگ بنے گی جس میں ریل گاڑی دوڑے گی اور اس شرپسند کی بات پر اعتبار کر کے، خصوصاً پٹی پٹائی پارٹی والوں نے سچ مچ کی دوڑ شروع کر دی۔ 
سائنس اور ٹیکنالوجی بہت ترقی کر گئی ہے لیکن ابھی اتنی نہیں کہ اتنی لمبی زیر آب سرنگ ڈالی جا سکے۔ امریکہ چین جاپان یورپی یونین آسٹریلیا اور عرب مل کر بھی اتنا سرمایہ اکٹھا نہیں کر سکتے اور ویسے بھی ، فی الوقت، ممکن ہی نہیں ہے۔ 
اصل میں ممبئی سے جہاز دبئی جائیں گے۔ وہاں سے ٹرینیں چلیں گی اور سعودی عرب، اردن سے ہوتی ہوئی اسرائیل کی بندرگاہ تک پہنچیں گی۔ وہاں سے پھر ان ٹرینوں کا مال سمندری جہازوں پر لاد کر یونان کی بندرگاہوں تک پہنچایا جائے گا اور ان بندرگاہوں سے پھر ٹرینیں چلیں گی جو مختلف یورپی ممالک تک پہنچیں گی۔
یعنی پہلے جو مال بھارتی بندرگاہوں سے بحیرہ عرب کو عبور کر کے باب المکرب وہاں سے بحیرہ قلزم اور پھر نہر سویز کے راستے پورپ کی بندرگاہوں تک جاتا تھا، اب امارات اور سعودی عرب کے 
برّی راستے سے شارٹ کٹ اختیار کر کے جایا کرے گا۔ 
یہ شارٹ کٹ کتنا ہے؟ ، نقشہ دیکھ کر مجھے جو بات سمجھ میں آئی ہے، وہ یہ ہے کہ کل راستے کی لمبائی دس سے پندرہ فیصد کم ہو جائے گی، اس سے زیادہ نہیں، خیر، پھر بھی بچت تو ہے اور زیادہ فائدہ تو اس میں امارات اور سعودی عرب کا ہے کہ بیٹھے بیٹھائے راہداری ملے گی۔ 
_________
چین کو اس شارٹ کٹ کی زیادہ ضرورت نہیں بلکہ سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں۔ یورپی ممالک کے لیے اس کی ہزاروں ٹرینیں، جی ہاں، سینکڑوں نہیں ہزاروں،چنکیانگ سے وسط ایشیا کو عبور کرتی ہوئی نکلتی ہیں جو ”شارٹ ٹرین کٹ ہے۔ پچھلے عرصے میں چین نے وسط ایشیا کے پہلے سے قائم وسیع و عریض ریلوے نیٹ ورک کو جدید بنایا ہے، سنگل ٹریک کی جگہ اب تین تین ٹریک متوازی چلتے ہیں۔ 
چین کی اصل ضرورت اب خلیج کے تیل کی ٹرانسپورٹ کیلئے شارٹ کٹ ہے، وہ سی پیک کی صورت میں ہے جسے پٹی پٹائی پارٹی نے اپنے ساڑھے تین سال کے دور میں روند کر رکھ ڈالا۔ اب نیا منظرنامہ ہے، امید ہے اب کوئی ”روندن“ نہیں ہو گی۔ 
_________
جی 20 کے ضمن میں ایک خبر آئی تھی کہ سعودی ولی عہد دلّی جاتے ہوئے چند گھنٹے اسلام آباد میں رکیں گے۔ وہ نہیں رکے۔ پٹی پٹائی پارٹی کیلئے ایک اور وجہ جشن دستیاب ہو گئی سو خوب جشن منایا، پاکستان کو ڈھیروں کے حساب سے سنائی گئیں۔ 
ایسا کوئی اعلان یا خبر سرکار کی طرف سے نہیں آئی تھی کہ سعودی ولی عہد رکیں گے۔ ہاں، میڈیا میں سرکاری ذرائع کا حوالہ دے کر یہ خبر ضرور چلائی گئی اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ سرکار اور سرکاری ذرائع کی خبروں میں وہی فرق ہوتا ہے جو موسم اور محکمہ موسمیات کی پیش گوئیوں میں دیکھا جاتا ہے۔ 
_________
مزے کی بات اور قدرے ناقابلِ یقین ، یہ ہے کہ عام اندازوں کے برعکس بھارت میں مودی سرکار کی مقبولیت بتدریج کم ہو رہی ہے اور جی 20 کانفرنس پر بی جے پی کی ”وہ مارا“ مہم کے باوجود یہ ہو رہا ہے۔ بھارتی میڈیا میں قیاس آرائیاں ہیں کہ بتدریج کم ہوتی مقبولیت کو روک لگانے کے لیے بی جے پی اب کیا کرے گی؟۔ مسلمانوں کی لنچنگ اور ملک کے ہر شہر میں ہوتی ہوئی ”ہیٹ سپیچز“ کے نتائج الٹ نکلے ہیں۔ ہر روز کہیں نہ کہیں سے کسی نہ کسی ’بی جے پی‘ وشوا پریشد‘ بجرنگ دل اور ایسی ہی درجن بھر پارٹیوں کے لیڈر کی تقریر آتی ہے کہ مسلمانوں کو کاٹ کر رکھ دیں گے، مسجد گرائیں گے، ملّا بھگائیں گے۔ اور یہ تسلسل اتنا زیادہ ہو گیا ہے کہ دوائی کی ”اوورڈ وزنگ“ کا سا نتیجہ آنے لگا ہے پہلے جو لوگ یہ تقریریں سن کر مزے لیتے تھے، اب بدمزہ ہونے لگے ہیں۔ مودی کا جادو جو پہلے سر چڑھ کر بولتا تھا، اب شانوں پر آ گیا ہے اور قدم جما نہیں پا رہا ہے۔ 
_________
سرکار سے وابستہ ایک صاحب نے مجھے بتایا کہ شیخ رشید کو اگلے چند روز میں پکڑ لیا جائے گا۔ ”چند روز“ سے کیا معنے لئے جائیں؟۔ یہی کہ سراغ مل گیا ہے کہ جیل کو سسرال سمجھنے اور موت کو دولہن ماننے والے سورما کس گپھا میں چھپے ہوئے ہیں۔ بتایا گیا کہ گپھا کا گیھرا تنگ کیا جا رہا ہے جس کے بعد ”دامادجی “ کی میزبانی شروع ہو جائے گی۔ اندازہ ہے کہ میزبانی حد درجہ پرتکلف ہو گی۔ براہ کرم تکلف کو تکلف ہی پڑھیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ دو نقطے ڈال کر تکلیف میں بدل ڈالئیے۔ بہرحال تکلف جانے ، سسرال جانے اور داماد جانے۔

ای پیپر دی نیشن