اسلام آباد(عزیز علوی)پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی اگلے ماہ 21 اکتوبر کو وطن واپسی کے باضابطہ اعلان سے قومی سیاست میں زبردست ہلچل پیدا ہو گئی ہے ایک طرف مسلم لیگ ن کے مرکزی ،صوبائی ،ڈویژنل اور ضلعی رہنما اورکارکنان اپنے لیڈر کی واپسی پر ان کے والہانہ استقبال کی تیاریوں میںمصروف رہیں گے تو دوسری جانب سیاسی مخالفین بھی میاں نواز شریف کے بھرپور تیاری کے ساتھ سیاسی میدان میں آنے سے اپنی حکمت عملی میں مگن ہوں گے تاہم طویل عرصے بعد مسلم لیگ ن اپنے لیڈر کو ملکی سیاسی سرگرمیوں میں متحرک دیکھیں گے پی ڈی ایم جس نے میاں نواز شریف کی بیرون ملک موجودگی کے عرصہ میں ان کی صاحبزادی مریم نواز شریف کے ساتھ طویل سیاسی جدوجہد کی اور 2018 کے الیکشن سے معرض وجود میں آنے والی پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف عوامی حمایت حاصل کی بلکہ قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک کامیاب کرکے اقتدار پی ڈی ایم کی جماعتوں کو دلوانے میں اہم کردار ادا کیا میاں نواز شریف جو پی ٹی آئی کے دور حکومت میں جیل سے لندن روانہ ہوئے تھے واپسی پراس وقت کے وزیر اعظم عمران خان آج اپنے مقدمات کے سلسلے میں اٹک جیل میں قید ہیں مسلم لیگ ن کا دعوی ہے کہ ان کے قائد کی وطن واپسی سے ملکی معیشت کی زبوں حالی قابو میں آئے گی اوروہی بجلی، گیس کے بھاری بھرکم بلوں سے عوام کو نجات دلائیں گے میاں نواز شریف وطن واپسی کے بعدپارٹی اور سیاسی اتحادی جماعتوں کے درمیان توازن رکھنے کے لئے کیا حکمت عملی اختیار کریں گے وہ بھی بڑی اہمیت کی حامل ہوگی ماضی میں مسلم لیگ ن کے اندرونی اتحاد کو انہوں نے ہمیشہ اولیت دی ہے جبکہ ملک میں عام انتخابات سر پر ہونے اور پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کے مراحل بھی اس وقت ان کے منتظر ہیں چنانچہ میاں نواز شریف کی واپسی سیاسی اور انتخابی سرگرمیوں میں ان کی بھرپور شرکت کے ہوں گے میاں نواز شریف کی جلاوطنی کے عرصے میں ان کے کارکنان اپنی سیاسی جدوجہد میں جن مشکلات سے گزرے انہیں بھی یقین ہے کہ اپنے قائد کی واپسی سے ان کی محنت اور خدمات رنگ لا رہی ہیں۔