پاکستانی کرکٹ آفیشل کا دورہ کیسینو اور ٹیم کی شکت

 کوئی یوں بھی ہارتا ہے جیسے پاکستان بھارت سے ہارا۔ کم از کم جان توڑ مقابلہ ہی کر لیتے لگ تو یوں رہا تھا کہ یہ دنیا کی نمبر ون ٹیم نہیں بلکہ کسی گلی محلے کے بچے کھیل رہے ہیں۔ وہ باﺅلرز جن کی دھاک ساری دنیا میں بیٹھی تھی، بے بس ہو گئے۔ نامور بلے باز کھیلنا بھول گئے۔ یوں لگ رہا تھا گویا تاریخ کے مغل اعظم کی تصویریں گم سم دیوار پر ٹنگے ہوئے ہیں۔ اب تو لگتا ہے اگلے میچ بھی ایسے ہی نہ ہوں۔ ساڑھے تین سو کا سکور بے شک بہت بڑا ہے۔ مگر یہ بنا کیسے۔ اس سے بھی بڑھ کر ہماری ٹیم کم از کم رنز بنا کر کیسے آﺅٹ ہو گئی۔ جم کر ہی مقابلہ کیا جاتا تب بھی مزہ آ جاتا مگر یہاں تو یکطرفہ مقابلہ نظر آتا ہے۔ 
دو روز قبل بس یونہی پاکستانی کرکٹ ٹیم نے دو آفیشل ممبر سری لنکا کے جوئے خانے میں جسے مشرف کی زبان میں کیسینو کہتے ہیں پائے گئے۔ ہو سکتا ہے وہ دیکھنے گئے ہوں کہ ایک معاشی و اقتصادی طور پر تباہ حال ملک میں جوا خانے کیسے ہوتے ہیں۔ کسی دل جلے نے ان کے اس دورے کی ویڈیو بنا لی یا تصویر لے لی اور جب یہ وائرل ہوئی تو یاران محفل کا ماتھا ٹھنکا کے خدا خیر کرے۔ مگردل تو پاگل ہے، صرف تسلی کے باوجود مطمئن نہ ہوا۔ اس کے اگلے ہی روز پاکستان اور انڈیا کے درمیان سنسی خیز مقابلے کی توقع رکھنے کی تمام امیدوں پر ایک تو بارش نے پانی پھیر دیااور دوسری طرف بھارتی بلے بازوں نے پاکستانی باﺅلرز کو یوں دھن کر رکھ دیا گویا وہ گلی محلے کے بچے کی ٹیم ہوں۔ صرف یہی نہیں اس کے جواب میں ہماری ٹیم کے بلے بازوں نے جس طرح بچگانہ اور عاجزانہ کھیل پیش کیا وہ بھی سب نے دیکھا ۔ایک ایک کرکے یوں ڈھیر ہوتے رہے گویا ریت کے محل ہوں جو بارش میں بہہ جاتے ہیں۔ کیا ہمارے باﺅلر اور بلے باز کھیلنا بھول گئے تھے یا کوئی معاملہ طے پایا تھا کہ بھارت کو مناسب انداز میں آگے لایا جائے۔ ویسے بھی جس کرکٹ مقابلے میں پاکستان اور انڈیا کا ٹاکرا ہو وہی سنسی خیز ہوتا ہے۔ اس کی ٹکٹیں بکتی ہیں اسی میچ میں کروڑوں کے داﺅ لگتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے اور میچ فکس یا بک کرانے والے طاقت ور مافیا کے لئے من مرضی کے نتائج حاصل کرنا پہلے بھی ناممکن نہیں تھا۔ مگر کیا کہیں 
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لپ پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
٭٭٭٭٭٭
 صدر مملکت کے عہدے کی معیاد میں توسیع کر دی گئی
 صدر مملکت کے عہدے پر توسیع ملنے کے بعد امید ہے کہ عارف علوی صاحب کیا اسی طرح ایک سخت گیر ساس والا رویہ برقرار رکھیں گے، جو انہوں نے سابق دور حکومت کے دور اقتدار میں اپنائے رکھا۔ اس دور میں وہ ایک سخت مزاج ممتحن کی طرح نظر آتے تھے جو چیکنگ کے وقت کسی کو کوئی رعایت دینے کے موڈ میں نظر نہیں آتے تھے۔ بعض ظالم ناقد تو انہیں پی ٹی آئی کا صدر کہہ کر اپنے دل کو تسلی دیتے تھے۔ انہوں نے اس کے باوجود اپنی پارٹی اور اپنے سیاسی قائد کے نظریات سے سرمو انحراف نہیں کیا۔ یوں وہ حقیقت میں وفاداری نبھاتے رہے۔ اب اس نئے سیٹ اپ کے ساتھ چلنا خدا جانے انکے لیے آسان ہوگا یا نہیں۔ اب حالات بہت بدل چکے ہیں”وہ جو بیچتے تھے دوا دل، اپنی دکاں بڑھا گئے۔“ اب نئے دوستوں کے ساتھ انہیں عارضی طور پر ہی سہی مگر کچھ یا زیادہ عرصہ کے لئے چلنا ہے اگر الیکشن میں تاخیر ہوتی ہے تو کیا وہ اپنا سخت موقف اپنائیں گے یا رعایت دیں گے۔ حالات اب بھی موڈ آف ہونے کا پتہ دے رہے ہیں جبھی تو شیخ رشید اور مراد سعید خم ٹھونک کر صدر مملکت کی جلد الیکشن والی پرانی روش کی مہم چلانے کے لیے سامنے آنے کی بجائے روپوش ہیں۔ نجانے کیوں سامنے آنے سے گریزاں ہیں۔ اب تو موسم بدل چکا۔ عدالتی اور صدارتی چھتر چھایا آج بھی عوام کے سروں پر سایہ فگن ہے۔ مگر کاغذی رستم زماں نجانے کس جہاں میں کھوئے ہوئے ہیں اور سامنے آنے سے گریزاں ہیں۔ امید ہے صدر مملکت اپنی رعایا کی ان بچھڑی کونجوں کو واپس ڈار میں لانے میں کامیاب ہوں گے۔
٭٭٭٭٭٭
اٹک جیل کے قیدی کو دیسی چکن دینے کےلئے 79 ہزار روپے جمع
 اب ذرا وہ لوگ سامنے آئیں جو کہتے ہوتے ہیں یا بالفاظ دیگر آنسو بہاتے ہوئے اٹک کے قیدی کی مظلومیت رونا روتے ہیں کہ انہیں جیل میں کوئی سہولت حاصل نہیں۔ اب کوئی ان سے پوچھے کہ جناب کیا جیل میں دیسی ککڑی سب قیدیوں کو میسر ہوتی ہے۔ بس اس ایک سہولت سے رعایت سے اندازہ لگا لیں خان جی کو کیسی کیسی نعمتیں وہاں مل رہی ہیں جو درمیانے طبقے کو جیل سے باہر میسر نہیں۔ حکومت پنجاب نے انہیں بلیو آئیز(نیلی آنکھوں) والا بچہ بنا کر رکھا ہوا ہے۔ پھر بھی کیا کریں ان کے حواری اور وکیل داستان غم بیان کرتے نہیں تھکتے۔ بے شک خان کی ہر خواہش پوری کی جاسکتی ہے مگر کھیلن کو مانگے چاند والی خواہش اب پوری ہونا ناممکن نظر آتی ہے۔ کوئی تھالی میں رکھ کر انہیں حکومت پیش کرنے سے تو رہا۔ اب ان کے وکلاءخوش خوراک خان کے لئے پہلے50 اب شاید مندی دیکھ کر 29 ہزار روپے ان کے اکاﺅنٹ میں جمع کرائے ہیں تاکہ انہیں دیسی مرغی کا گوشت کھانے کو ملتا رہے۔ اگر یہی لوازمات مفت میں ملتے رہے تو کہیں رہا ہونے پر اٹک جیل کا یہ باسی باہر آنے سے ہی یہ کہہ کر انکار نہ کر دے۔”قید مانگی تھی رہائی تو نہیں مانگی تھی“ سوشل میڈیا پر اگر دیکھیں تو پی ٹی آئی والے اپنے مرشد کو باریش بھوک و سختیوں سے یوں نڈھال دکھاتے ہیں کہ ان کے حامی اور مرید اپنے مرشد کی یہ حالت دیکھ کر رو پڑتے ہیں۔ کئی جذباتی جیل کی دیوار کو چومتے ویڈیو بنواتے ہیں۔ اب کہیں وہ عام قیدیوں والے کپڑے پہن کر زمین پر سونے اور شیو کرانی چھوڑنے نہ لگ جائیں۔ اس حد تک تو درست ہے مگر یہ دیسی مرغی کہاں سے لائیں گے کھانے کے لئے اپنے مرشد کی طرح....
٭٭٭٭٭٭
آٹا، چینی، کھاد کے چھپائے ذخیروں پر چھاپے 
اگر اسی طرح انتظامیہ ہر وقت حرکت میں رہے تو کم از کم ان ذخیرہ اندوزوں پر خوف تو طاری ہو گا۔ خدا سے تو یہ بدبخت ڈرتے نہیں۔ کم از کم جیل اور قانون کے خوف سے ہی یہ بدمست لوگ قابو میں آ جاتے۔ اس وقت ملک بھر میں جگہ جگہ انتظامیہ کے چھاپوں میں ہزاروں ٹن چینی، آٹا اور کھاد برآمد ہو رہے ہیں۔ اب حکومت ان برآمد شدہ ذخیروں کو غریبوں میں ارزاں قیمت پر فروخت کرے‘ اس طرح کم از کم بھوک اور غربت کے مارے لوگوں میں بڑھتے ہوئے خودکشی کے رحجان کو روکا جا سکے گا۔ اس کے ساتھ ان ذخیرہ اندوزوں کو بھی نشان عبرت بنایا جائے۔ ویسے بھی یہ رعایت کے مستحق نہیں۔ یہ اللہ کے بندوں پر زندگی دشوار کرتے ہیں۔ یہ مہم صرف چند روز بعد بند نہ کی جائے۔ اسے مستقل بنیادوں پر جاری رکھاجائے تاکہ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں اعتدال پر رہیں اور حکمرانوں کو لوگ اچھے الفاظ میں یاد رکھیں۔ 
٭٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن