چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس عمر عطاءبندیال نے کہا ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام آئیگا تو عدلیہ سمیت ہر ادارہ مستحکم ہوگا۔ آئینی معاملات میں الجھا کر عدالت کا امتحان لیا گیا۔ وہ ان واقعات کو دہرانا نہیں چاہتے‘ درگزر کررہے ہیں جبکہ تمام واقعات آڈیو لیکس کیس کے فیصلے کا حصہ بنا دیئے ہیں۔ گزشتہ روز نئے عدالتی سال کے آغاز کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ جہاں آزاد دماغ موجود ہوں‘ وہاں اختلاف ہوتا رہتا ہے۔ میرے ”گڈ ٹو سی یو" والے جملے کو غلط رنگ دیا گیا۔ 2023ءمیں سپریم کورٹ کے سامنے کئی آئینی مقدمات آئے۔ آئینی معاملات میں الجھا کر عدالت کا امتحان لیا گیا۔ انہوں نے زیرالتواءمقدمات میں خاطرخواہ کمی نہ لانے کا اعتراف کیا اور کہا کہ وہ زیرالتواءمقدمات کی تعداد میں دو ہزار کی کمی ہی کر پائے۔ انہوں نے نامزد چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور کہا کہ تمام ساتھی ججوں کا انکے ساتھ برتاﺅبہت اچھا رہا۔ قبل ازیں سپریم کورٹ میں سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس مسٹر جسٹس عمر عطائ بندیال کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس کا بھی انعقاد کیا گیا جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت سپریم کورٹ کے 15 فاضل ججوں نے شرکت کی۔
یہ امر واقع ہے کہ ہماری عدل گستری میں خرابیاں در آنے میں جوڈیشل ایکٹوازم کا بھی عمل دخل ہے جس کے استعمال کا مقصد انصاف کی عملداری ہوتا ہے اور عدلیہ کی اصلاح مقصود ہوتی ہے تاہم عدالتی فعالیت نے بالعموم عدل گستری سے عوام کو بدگمان کرنے کے راستے ہی ہموار کئے۔ جسٹس سجاد علی شاہ سے اب تک عدالت عظمیٰ کے فاضل چیف جسٹس صاحبان کی جانب سے جوڈیشل ایکٹوازم کے فلسفہ کے تحت اپنے ازخود اختیارات کو بروئے کار لانے سے سیاسی اور عدالتی نظام میں اکثر خلفشار کی کیفیت ہی پیدا ہوتی رہی۔ بالخصوص موجودہ چیف جسٹس عمر عطاءبندیال جو تین روز بعد اپنے منصب سے سبکدوش ہو رہے ہیں‘ بدقسمتی سے ایک مخصوص سیاسی سوچ کے تحت آئینی معاملات میں اپنے ازخود اختیارات بروئے کار لاتے رہے جس کے باعث سپریم کورٹ کے اندر بھی واضح تقسیم پیدا ہوئی اور پی ڈی ایم کی حکومت بھی عدالتی اصلاحات ایکٹ لا کر چیف جسٹس کے صوابدیدی اختیارات عدالت عظمیٰ کی ایک کمیٹی کے سپرد کرنے پر مجبور ہوئی۔ اس تناظر میں عدالت کو آئینی معاملات میں الجھانے کی بنیاد تو خود فاضل چیف جسٹس نے اپنے صوابدیدی اختیار کے بے دریغ استعمال کے ذریعے رکھی جس کا مقصد بھی بادی النظر میں ایک مخصوص سیاسی جماعت اور اسکے قائد کو فائدہ پہنچانا ہوتا تھا۔ اس تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ: ”اے بادِ صبا ایں ہمہ آوردہ تست“۔ اگر عدلیہ اپنے کوڈ آف کنڈکٹ کے تابع رہے اور مقدمات کی سماعت کے دوران فاضل جج خود بولنے کی بجائے اپنے فیصلوں کو اپنی زبان بنائیں تو نظام عدل پر کسی کو انگلی اٹھانے کی بھی جرا¿ت نہ ہو۔ توقع کی جانی چاہیے کہ نامزد چیف جسٹس مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے دور میں کوڈ آف کنڈکٹ اور صوابدیدی اختیارات کے معاملہ میں عدل گستری کا وقار بڑھائیں گے اور کسی کیلئے پارٹی بن کر فیصلے صادر کرنے کی اپنے پیشروﺅں کی روش پنپنے نہیں دینگے۔