قلم زاریاں....ایم اے طاہر دومیلوی
tahirdomelvi123@gmail۔com
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ مجبوری کے تحت پیشہ تدریس اختیار کرنے والا شخص کبھی بھی حقیقی معنوں میں معمار قوم نہیں ہوسکتا اور نہ ہی بطریق احسن خام مال کو کندن سونا بنا سکتا ہے ا±ستاد کا ایک مقام و رتبہ ہےآقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے لئےمعلم کے لقب کو پسند فرمایا قوموں کی تعمیر و ترقی استاد کے ذات پر موقوف ہے استاد محسن قوم ،استاد وراثت پیغمبری کا آمین اور معاشرے کا اصلاح کار ہوتا ہے استاد معاشرے کے لئے نمونہ ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں استاد کو جومقام حاصل ہے وہ اور کسی کو نہیں ۔اور استاد کو روح انسانی کا صنعت گر قرار دیا گیا ہے استاد معمار قوم کی حیثیت سے معاشرے اور قوم کی تعمیر و تشکیل کا زمہ دار ہے اس لئے ایک استاد کے لئے لازم و ملزوم ہے کہ وہ فرض شناس ہو اس میں تدریس کا طبعی رجحان اور زمہ داری کا احساس پایا جاتا ہو استاد وہ ہستی ہے جو بچوں کو علم کی زیور سے آراستہ و پیراستہ کرتی ہے اور تعلیمی عمل کا دارومدار معلم کے ہی مرہون منت ہے معلم طالب علم کے لیے ایک مثالی شخصیت ہے وہ اس کا مربی مرشد مشیر اور رہنما ہوتا ہے اور شاگرد ہر سال معاملہ میں اپنے استاد کی تقلید کرتا ہے اگر استاد علم کر دار اور اخلاق کے لحاظ سے بلند ہے تو وہ طالب علم کو بھی زندگی میں رفعتوں اور کامرانیوں سے ہمکنار کر نے میں کامیاب قرار پائے گا استاد نہ صرف طالب علموں کو ہی علم بہم پہنچاتا ہے بلکہ وہ ان کی ہر معاملہ میں رہنمائی بھی کرتا ہے استاد کی قبلیت، شفقت محنت اور لگن سے طالب علم کی زندگی میں انقلاب آسکتا ہے اگر استاد فن تدریس میں ماہر اور تربیت یافتہ ہو تو وہ تعلیمی عمل میں حقیقی روح پھونک سکتا ہےمعلم کا کردار نہ صرف متعلم پر اثر انداز ہوتا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ پورے تعلیمی عمل کو متاثر کرتا ہے تو بے جا نہ ہو گا ایک مشہور کہاوت ہے کہ جو کچھ جگ میں ہوگا وہی گلاس میں آئے گا ایک استاد کا کردار طالب علموں کے لیے مثالی ہونا چاہیے بچے کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں اور انہوں نے ہی مستقبل میں ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہوتی ہے اس لیے استاد ان کے ذہنوں کو قومی نظریے سے روشناس کروا کر انہیں خود شناسی کی دولت سے مالا مال کر دیتا ہے اور انہیں اس قابل بناتا ہے کہ وہ معاشرے کے ساتھ مطابقت اختیار کر کے ملک و قوم کی ترقی میں حصہ لے سکیں معلم کو روح کی حیثیت حاصل ہے معلم کے بغیر تعلیمی عمل کامیاب نہیں ہو سکتا اور تعلیمی عمل میں پائی جانے والی کوئی بھی چیز استاد کی جگہ نہیں لے سکتی اور استاد ہی تعلیم کو با مقصد سرگرمی بناتا ہے اور اقوام کی ترقی میں بہت اہمیت کا حامل ہے استاد بچوں کے اخلاق و کردار کی تربیت کرتا ہے اور انہیں معاشرے میں کامیاب زندگی گزارنے کے قابل بناتا ہے لیکن صد افسوس کے آج کا استاد ماڈل نہیں دکھائی دیتا اور ساتھ میں جو اوصاف حمیدہ ہونے چاہیے وہ نظر نہیں آتے استاد اپنے مقام اور رتبے سے کوسوں دور دکھائی دیتا ہے علم تعلیم میں سب سے اہم عنصر طالب علم ہے جس کے لیے تعلیم کا عمل انجام پاتا ہے اس کی تربیت اور متوازن نشوونما کے لیے معاشرہ نظام وضع کرتا ہے متعلم معاشرے کا ایک اہم رکن ہے اس کی تعلیم پورے معاشرے کی تعلیم ہوتی ہے معاشرے کے لیے لازم ہے کہ طالب علم کی تربیت ایک انفرادی ضروریات صلاحیتوں اور دلچسپیوں کے مطابق کرے تاکہ وہ معاشرے کا ایک مفید رکن اور اچھا شہری بن کر اپنے اور دوسروں کے حقوق کو فرائض کو سمجھ سکے تعلیمی عمل کی کامیابی کے لیے طالب علم کے بارے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ عمر کے کس درجے میں ہے اور اس کی عمر کے کیا تقاضے ہیں طالب علم کی صلاحیتیں اور رجحانات کیا ہیں تاکہ ان تمام چیزوں کو سامنے رکھ کر اسے تعلیم دی جا سکے اگر بچوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے تو وہ اپنے تجربات اور ماحول سے کچھ نہ کچھ سیکھ کر بڑے ہو جائیں گے لیکن ضروری نہیں کہ معاشرے کے مطلوبہ معیار کے مطابق ہوکیونکہ زندگی کا مقصد صرف روح اور جسم کا رشتہ درکار رکھنا اور روزی کمانا نہیں بلکہ زندگی کو ایسے رخ پر ڈالنا ہے کہ وہ اس ریاست اور معاشرے کا مفید شہری بنے تعلیم طالب علم کو اللہ تعالی کا متقی و فرمانبردار بندہ بنا کر اس ملک کو ملت کی خدمت کے جذبے سے سرشار کرتی ہے تاکہ وہ اپنے فرائض ادا کرے دوسروں کے حقوق کا احترام کرے اور متوازن معاشرے کی تشکیل میں مددگار ہو کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اس کا مقصد ضرور متعین کیا جاتا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کام کیوں کیا جا رہا ہے جب ایک مسافر سفر کرتا ہے تو اس کے سامنے کوئی منزل ضرور ہوتی ہے چونکہ تعلیم ایک با مقصد سرگرمی ہے تعلیم کے بہت سے مقاصد ہوتے ہیں ان مقاصد کے حصول کے لیے تعلیمی عمل ہی سے مربوط اور منظم کیا جاتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ استاد تعلیمی عمل میں فرض شناسی کا مظاہرہ کرے اور طالب علموں کو علم کے زیور سے بہرہ ور کرنے میں کوئی لمحہ ضائع نہ کرے معاشرہ اس سے جو امیدیں رکھتا ہے جو توقعات رکھتا ہے اس پر استاد کو پورا اترنا چاہیے تعلیم کےبغیر ترقی ناممکن ہے تعلیم کے بے شمار فوائد ہیں تعلیم افراد کو خود شناسی سکھاتی ہے اسی خود شناسی اور خود آگاہی کو اقبال نے خودی کا نام دیا ہے خود شناسی کے ذریعے انسان اپنی صلاحیتوں کو پہچانتا ہے اور انہیں استعمال میں لا کر ملک و قوم کی ترقی کے لیے کام کرتا ہے اس لیے علامہ محمد اقبال رحم? اللہ علیہ نے تعلیم کو تعمیر خودی اور تکمیل خودی کا نام قرار دیا ہے تعلیم کا اہم مقصد طالب علم کو تصور علم سے آگاہ کرنا ہے علم کے تصور سے آگاہی بہت ضروری ہے اس سے انسان کو پتہ چلتا ہے کہ حقیقی سرچشمہ علم کیا ہے کون سا ذریعہ علم حقیقی اور قطعی ہے اس طرح فرد غلط ذرائع علم کو چھوڑ کر درست اور حقیقی علم سے آگاہ ہوتا ہے تعلیم فرد کو اس حقیقت سے آشنا کرتی ہے کہ وہ اس دنیا میں اللہ تعالی کا نائب بن کر ایا ہے اور اس کا فرض ہے کہ وہ اللہ تعالی کا نائب ہونے کی حیثیت سے اس دنیا کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنائے تعلیم کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ یہ افراد میں عالمی قیادت کی صلاحیت پیدا کرتی ہے پاکستان اسلام کا قلعہ ہے اس لیے تعلیم کے ذریعے افراد کی قائدانہ صلاحیتوں کی نشر ونما کرنا بھی ان مقاصد میں شامل ہے تعلیم ہی کی بدولت ہی فنی و تربیت یافتہ افرادی قوت تیار کی جاتی ہے جو زندگی کے مختلف شعبوں میں کام کرتے ہیں اور معاشرے کی معاشی ضروریات کی تکمیل میں مددگار ثابت ہوتے ہیں تعلیم یافتہ اور ہنر مند لوگ ملکی خوشحالی معاشی ترقی کا باعث بنتے ہیں قومی پیداوار بڑھتی ہے اور ملک کی معیشت مضبوط ہوتی ہے تعلیم کا ایک اہم مقصد معاشی خود کفالت بھی ہے یہ افراد کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ معاشرے پر بوجھ بننے کی بجائے مختلف مہارتیں سیکھے اور خود کفیل بنے تاکہ معاشرتی خوشحالی ہو اس لیے ایک استاد کا فرض ہے کہ وہ تعلیم یافتہ ہو تربیت یافتہ ہو اور اپنے فرض سے لگن رکھتا ہو حادثاتی طور پر تعلیم جیسے پیشے سے منسلک ہو جانا تعلیمی انقلاب کا باعث نہیں بن سکتا تعلیم فرد کی شخصیت کی تکمیل کرتی ہے تعلیم ایک مسلسل عمل ہے تعلیم معاشرے کی نوخیز نسلوں کی ذات کی تکمیل کرتی ہے تعلیم معاشرے کے آداب سکھاتی ہے تعلیم خود شناسی اور خود شناسی سکھاتی ہے کہ ہم تعلیم تجربے کی تعمیر نو اور تنظیم نو کا نام ہے اس سے تجربے کے معنی میں اضافہ ہوتا ہے اور مستقبل کی سرگرمیوں اور تجربات کی راہیں متعین کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے تعلیم کے متعلق فرمایا علم حاصل کرو پنگھوڑےسے قبر تک آپکے اس ارشاد سے پتہ چلتا ہے کہ تعلیم مسلسل جاری رہنے والا علم ہے تعلیم کے بارے قائد اعظم رحم? اللہ علیہ نے فرمایا تعلیم آئندہ انے والی نسلوں کے کردار کو پختہ کرنے کا نام ہے تعلیم انسان کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے انہیں ترقی دینے اور کسی ہنر کے حصول کے قابل بنانے نیز اسے دین کے تحت قائم رکھنے جدید و قدیم علوم سکھانے میں مدد دینے کا نام ہے تاکہ وہ اچھے مسلمان بنے اور معاشرے میں باعزت مقام حاصل کریں تعلیم انسان کی صلاحیتوں کو نکھارتی ہے تعلیم ہی سے فرد نیکی اور بدی میں تمیز کرنا سیکھتا ہے تعلیم انسان میں بہت مثبت تبدیلیاں پیدا کرتی ہے اور انسان کی معاشرتی اہلیت بڑھتی ہے علم تعلیم میں سب سے اہم عنصر متعلم ہے جس کے لیے تعلیم کا عمل انجام پاتا ہے اسی کی تربیت اور متوازن نشوو نما کے لیے معاشرہ نظام وضع کرتا ہے تعلیم متعلم کو اللہ تعالی کا فرمانبردار بندہ بنا کر اسے ملک و ملت کی خدمت کے جذبے سے سرشار کرتی ہے تاکہ وہ اپنے فرائض ادا کرے اور دوسرے حقوق کا احترام کرے اور متوازن معاشرے کی تشکیل میں مددگار ہو استاد کو چاہیے کہ وہ طالب علم کو تعلیم کی طرف مائل کرے اس کو تار ک مدرسہ کا شکار نہ کرے اس کے حوصلے بلند کرے اس کی ڈھارس بندھائے اور اس کو اس قابل بنائے کہ وہ اپنی ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کی کوشش کرے علامہ اقبال نے کہا ہے کہ ناکامی کامیابی کا زینہ ہے اس لیے ایک استاد کا فرض ہے کہ وہ امتحان میں اچھی کارکردگی نہ دکھانے پر کسی طالب علم کو ڈانٹنے کی بجائے اس کے اندر ایک ایسی تحریک پیدا کرے کہ وہ اس ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کے لیے آمادہ ہو یہ کام وہ استاد ہی کر سکتا ہے جو پیشہ وارانہ ذمہ داریوں سے آگاہ ہو تعلیم یافتہ ہو اور ساتھ تربیت یافتہ بھی ہو حادثاتی طور پر تعلیم جیسے باوقاراور معزز شعبہ سے منسلک ہو جانے سے کوئی شخص صحیح معنوں میں معمارقوم نہیں بن سکتا استاد کا رتبہ بہت بلند ہے اس لئے اس پر بھاری زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے فرائض منصبی بطریق احسن سر انجام دے اورمعمار قوم ہونے کا ثبوت دے استاد متعصب حاسد اور دروغ گو نہیں ہو سکتا استاد ماڈل ہوتا ہے اور معاشرتی بگاڑ کو دور کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اس لئے تو اس کو روح انسانی کا صنعت گر کہا جاتا ہے استاد محسن قوم وراثت پیغمبری کا آمین اور معاشرے کا اصلاح کار ہوتا ہے قوم کی امیدیں اس سے بندھی ہوتی ہیں ایسے معمار قوم کو سلام جو صحیح معنوں میں تعلیمی انقلاب برپا کرنے کے لئے کوشاں ہیں