اصغر علی شاد
امر اجالا
shad_asghar@yahoo.com
مبصرین کے مطابق یہ امر قابل ذکر ہے کہ جرمنی نے حال ہی میں مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے 28 افغان پناہ گزینوں کو ملک بدر کیا ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ اقدام سیکورٹی خدشات کو دور کرنے کے لیے جرمنی کی وسیع تر کوششوں کا حصہ ہے، خاص طور پر حالیہ پرتشدد واقعات کے بعد جن میں پناہ گزین افراد شامل ہیں۔ اس کے برعکس، پاکستان نے 40 سال سے زائد عرصے تک اپنے معاشی اور سیکیورٹی دباو کا سامنا کرنے کے باوجود 40 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو پناہ دے کر غیر معمولی مہمان نوازی کا مظاہرہ کیا۔ جرمنی کے موجودہ اقدامات کے برعکس، پاکستان نے افغان تارکین وطن کو کئی دہائیوں سے اپنے معاشرے میں رہنے اور انضمام کی اجازت دی۔ کسے معلوم نہیں کہ اب 4 دہائیوں کے بعد، پاکستان نے اب عزت اور احترام کو برقرار رکھتے ہوئے صرف غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا ہے جن کا مقصد اپنی آبادی کو منظم کرنا ہے۔اسی ضمن میں یہ بات خصوصی توجہ کی حامل ہے کہ 3 اگست 2023 کو، طالبان کے سپریم لیڈر شیخ ہیبت اللہ اخوندزادہ نے ایک فتویٰ جاری کیا جس میں افغانوں پر افغانستان سے باہر جہاد میں حصہ لینے اور دہشت گردی کی حرام کارروائیوں سے خود کو دور کرنے پر پابندی عائد کی گئی۔مبصرین کے مطابق یہ حکمنامہ افغان حکام کے ٹی ٹی پی کی موجودگی سے انکار کو براہ راست جٹلاتا ہے اور یہ سوال اٹھاتا ہے کہ اگر ٹی ٹی پی افغانستان میں نہیں ہے، اور افغان دہشت گردی سے پاکستان میں کارروائیاں نہیں کر رہی ہے، تو ایسی ہدایت کی ضرورت کیوں پیش آئی؟۔یہ اعتراف پاکستان کے مسلسل دعووں سے مطابقت رکھتا ہے کہ ٹی ٹی پی کے کارندے پاکستان میں سرحد پار سے حملے کرنے کے لیے افغان سرزمین کو اڈے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔غیر جانبدار حلقوں کے مطابق افغانستان میں ان عسکریت پسندوں کی نقل مکانی نہ صرف ان کی قائم کردہ موجودگی کو واضح کرتی ہے بلکہ ان پیچیدہ سکیورٹی چیلنجوں کو بھی اجاگر کرتی ہے جن کا پاکستان کو اس مسلسل خطرے کی وجہ سے سامنا ہے۔۔دوسری جانب اس امر کا تکذرہ بیجا نہ ہوگا کہ بنگلہ دیش کے مشرقی اضلاع میں سیلاب کی بدترین تباہ کاریاں جاری ہیں۔غیر جانبدار مبصرین کے مطابق بھارت دانستہ طور پر ان دریاو¿ں میں پانی چھوڑ رہا ہے تاکہ بنگلہ دیش کی معاشی اور معاشرتی صورتحال میں ابتری پیدا کر سکے۔تفصیل اس معاملے کی یہ ہے کہ دریائے گومتی پر بھارت کے ڈمور ڈیم سے غیر اعلانیہ طور پت پانی کااخراج جاری ہے اور اس غیر اعلانیہ اخراج سے بنگلہ دیش کے مشرقی علاقوں میں سیلابی صورتحال جاری ہے۔مبصرین کے مطابق کسے معلوم نہیں کہ ہمسایہ ممالک میں غیر اعلانیہ پانی چھوڑنا بھارت کا پرانا وطیرہ ہے جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر سیلاب اور تباہی پھیلتی ہے اوراسی ضمن میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس ساری صورتحال میں بنگلہ دیشی عہدیداروں اور میڈیا نے ڈیم سے غیر اعلانیہ پانی چھوڑنے پر بھارت کو مودر الزام ٹھہرایا ہے۔یاد رہے کہ بنگلہ دیش میں یہ سیلاب 37 سالوں میں بدترین قرار دیا گیا ہے جس نے کئی اضلاع میں تباہی مچادی ہے اور تقریباً 30 لاکھ سے زیادہ افراد کو بے گھر کردیا ہے جبکہ بھارت کی وزارت خارجہ (ایم ای اے) نے اس الزام کی ذمہ داری کی تردید کی ہے اور بھارت نے سیلاب کو شدید بارش سے منسوب کیا ہے اور اس ضمن میں بھارت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ڈیم سے پانی کا اخراج معمول کے مطابق ہے اور اس ضمن میں ریئل ٹائم ڈیٹا کو بنگلہ دیش کے ساتھ شیئر کیا گیا تھا۔مبصرین کے مطابق بھارت اور بنگلہ دیش کے مابین سیلاب کے اعداد و شمار کے اشتراک کے لئے موجودہ پروٹوکول کے بارے میں سوالات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں۔دوسری جانب غیر جانبدار حلقوں نے زور دے کر کہا ہے کہ جنوبی افریقہ میں بڑھتی ہوئی ہندو قوم پرستی نے سماجی ہم آہنگی کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور اس تناظر میں وشوا ہندو پریشد اور HSS جنوبی افریقہ میں مذہبی پولرائزیشن کو ہوا دے رہے ہیں۔اسی تناظر میں مبصرین نے کہا ہے کہ ڈربن میں بین المذاہب دعائیہ اجتماع میں بڑھتا ہوا تناو¿ تشویشناک ہے اورفینکس اور ڈربن میں بڑھتا احتجاج عالمی برادری کو اپنی جانب متوجہ کررہا ہے۔اس ضمن میں غیر جانبدار حلقوں نے کہا ہے کہ ہندو قوم پرست سوشل میڈیا کو تفرقہ انگیز بیان بازی اور انتشار پھیلانے کے لیے عرصہ دراز سے ا ستعمال کرتے آرہے ہیں اور اسی حوالے سے جنوبی افریقہ میں مقیم ہندو رہنما انتہا پسند نظریات کو فروغ دینے کیلئے تمام وسائل بروئے کار لا رہے ہیں۔غیر جانبدار حلقوں نے کہا ہے کہ جنوبی افریقہ میں مقیم ہندو قوم پرستی کے اثرات عالمی برادری کے لئے لمحہ فکریہ ہونے چاہیں کیوں کہ بڑھتی ہندوانتہا پسندی سب کیلئے باعث تشویش ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ 2017-2021 کے درمیان متعدد مقدمات میں بھارتی فوج کے افسران کو منشیات کی اسمگلنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے اور اس ضمن میں انکشاف سامنے آیا ہے کہ بھارتی آرمی کے اہلکار مبینہ طور پر مقامی منشیات کے سمگرز کے ساتھ باقاعدہ طور پر شامل ہیں اور ایل او سی میں منشیات کی نقل و حمل کے لئے فوجی وسائل کا استعمال کرتے ہیں اور یہ سب کام بڑے منظم طور پر کیا جا تا ہے۔اس ضمن میں یہ بات بھی اہم ہے کہ اس حوالے سے ہندوستانی قانون میں کورٹ مارشل موجود ہے لیکن بدعنوانی اور استثنیٰ کے ساتھ شفافیت اور احتساب کے بارے میں خدشات پائے جا تے ہیں۔ یاد رہے کہ اسی حوالے سے عالمی اداروں کی اس معاملے میں توجہ نارکو اسمگلنگ میں ہندوستانی فوجیوں کی ملوث ہونے کے شواہد کو اجاگر کرتی ہے مگر اس حوالے سے ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی سطح پر ان بھارتی سازشوں کو بے نقاب کیا جائے۔ ما ہرین کی رائے ہے کہ منشیات کی عالمی اسمگلنگ میں بھارتی افواج کے ملوث ہونے کی موجودہ تحقیقات مستقبل کے اقدامات کے تعین کے لئے انہتائی اہم ہیں۔ مبصرین نے اس امر کو انتہائی اہم قرار دیا ہے کہ بھارت انسانی حقوق کی رپورٹ نہ جمع کرنے میں دانستہ طور پر تاخیری حربے استعمال کر رہا ہے اور اس ضمن میں قوام متحدہ نے انسانی حقوق کی رپورٹ نہ جمع کرنے پر بھارت کی سرزنش بھی کی ہے۔یاد رہے کہ یہ رپورٹ 2001 سے التوا میں ہے اور بھارت شرمند گی سے بچنے کے لیے مسلسل تاخیر ی حربے استعمال کرتا آیا ہے اور تا حال یہ سلسلہ جاری ہے۔ غیرجانبدار حلقوں کے مطابق بھارت کو 1997-2022 تک انسانی حقوق کی سفارشات پر عمل درآمد کرنا تھا لیکن اس میں ناکامی پر بھارت کو تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیو ں کہ عالمی اداروں کی جانب سے رپورٹ میں ہندوستانی خواتین کے حقوق کے قوانین کے ناکافی نفاذ پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور اقوام متحدہ نے غیر قانونی حراستوں اور اقلیتوں کے ساتھ زیادتیوں کے لیے UAPA اور AFSPA قانون کی رپورٹ میں کئی بار مذمت کی ہے۔ مبصرین کے مطاق کسے معلوم نہیں کہ بھارت پر آزادی اظہار کو دبانے اور این جی اوز کو نشانہ بنانے کا بھی الزام ہے۔ یا رہے کہ اس ضمن میں بین الاقوامی جبر اور بیرون ملک مقیم اپنے لوگوں کو قتل کرنا،مسلمانوں، عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرنااور انہیں مارنا،ان کی املاک کو نقصان پہنچانا اس میں ہندوستانی حکمرانوں کے ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں مگر اسے اقوام متحدہ اور عالمی اداروں کی ناکامی سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ تا حال عالمی برادری ہندوستانی حکمرانوں کی منفی روش کو موثر ڈھنگ سے نکیل نہیں ڈال سکی۔
عالمی برادری کی بے حسی اور بھارتی انتہاء پسندی
Sep 13, 2024