تاریخی شخصیت جمیل مرغز…کچھ یادیں کچھ باتیں

Sep 13, 2024

پروفیسر بشردوست بام خیل

پروفیسر بشردوست بام خیل

اگر کوئی آپ کے قریب سے کوئی ایک خوبی والا انسان اٹھ کر چلا جائے تو اپ خفہ ضرور ہوں گے لیکن اگر اس کے اندر قابلیت ذہانت سیاست مذہب قانون ادب صحافت علم و مطالعہ کا سمندر چھپا ہو اور وہ اپ سے منہ موڑ لے تو یقینا اسکی کمی سالہا سال تک رہے گی اور اس کی باتیں اس کے قصے اس کی بہادری ہمیشہ یاد رہے گی .ضلع صوابی کا بلند پایہ سیاستدان ادیب کالم نگار جمیل مرغز کی رحلت پر اج پورے ملک سے لوگ تعزیت کے لئے اور جنازہ میں شرکت کے لئے ارہے ہیں اور اس کو خراج تحسین پیش کر رہے ہیں کیونکہ مختلف سیاسی اختلافات اور نظریاتی کشمکش کے باوجود اس کی ایمانداری ایفائے عہد سچائی اور بے باکی کی شہادت اس کے سخت مخالفین بھی دے رہے ہیں .سب سے پہلے اپ کو بتائیں کہ جمیل مرغز کون ہے اور ان کی زندگی کس طرح سے گزری اور اس نے اپنے دور میں کیا کیا مصائب و الام جھیلے اور کیا کارنامے انجام دئیے .ضلع صوابی کے مرغز گاوں میں پیدا ہوئے اور یہاں سے تعلیم کے بعد اسلامیہ کالج چلے گئے جہاں اس کے تیز ذہن نے بہت کچھ دیکھا سیکھا اور حاصل کیا اور وہاں سے ہی سٹوڈنٹ سیاست پختون سٹوڈنٹ اور ڈیموکریٹک سٹوڈنٹ فیڈریشن کے ساتھ منسلک ہوئے اور دکھی انسانیت محرومیوں کے مارے لوگوں اور غربت کی چکی میں پسے عوام کو اس اندھے کنویں سے نکالنے کے لئے کارل مارکس کے فلسفہ کو پڑھا ہضم کیا اور تمام عمر اس پر کاربند رہے .قانون کی ڈگری حاصل کی اور سیاست و صحافت اور قانون کو ذریعہ روزگار بنایا اور دن کو صوابی اور شام کو مرغز میں بام خیل چوک میں بنے اپنے مارکیٹ کے چھت پر ترقی پسند خیالات کے دوستوں کے ساتھ گپ شپ لگاتے اور یوں زندگی کے ایام سے طف اٹھا کر اپنے دن گزارتے .دو شادیاں کیں لیکن ان کے چمن میں کوئی پھول نہیں کھلا اور شاید یہی وجہ تھی کہ قلم و قرطاس کو کالم نگاری کو عزیز رکھا۔اپنے کالموں سے ہر طرف دھوم مچائی اور خاص کر جب لفٹ کے فلسفہ پر کارل مارکس پر کمیونزم و سوشلزم پر قلم اٹھاتے کالم رقم کرتے تو دس کتابوں کے برابر اس میں مواد بھرا ہوتا تھا.بہترین مقرر تھے اور سکول و کالج کی سطح پر ہمیشہ انعامات حاصل کرتے تھے اور ایک دفعہ جب اسلامیہ کالج میں نقد انعام ملا تو بقول ابراھیم خلیل کے ان پیسوں سے سعید بک بینک پشاور صدر سے کتابیں خریدیں اور تانگے کے ذریعے اسلامیہ کالج پہنچا دئیے .سی ایس ایس کی تیاری کر رہے تھے کہ سیاسی بیداری اور ضیائ آمریت کے خلاف پابند سلاسل ہو گئے اور جب سابق سیکرٹری جاوید اقبال ملاقات کے لئے گئے تو بہت قیمتی بات کہی کہ جلسے جلوس چھوڑو جاو ہمارے گھر میں سی ایس ایس کی کتابیں پڑھی ہیں وہ لے لو اگے بڑھو اور مقابلے کا امتحان دو اور ہمارے ہاتھ مضبوط کرو کیونکہ تحریکوں کو کامیاب بنانے کے لئے ہر محاذ پر جانباز چاہیے.بہت تیز ذہن کے مالک تھے اور جس چیز کو پڑھتے اس پر ایسا تبصرہ کرتے کہ حیران رہ جاتے اور بے دھڑک بے لاگ اپنی رائے کا اظہار کرتے تھے .پروفیسر اسماعیل نے امریکہ سے فون پر بتایا کہ سچے کھرے اور صاف گو انسان تھے اور جب کمیونسٹ پارٹی کی وجہ سے ہم ہری پور جیل میں تھے تو ہر شام محفلیں جمتی جس میں اپنے مطالعہ کتب بینی مشاہدے کی بنیاد پر وہ محفل کو ہمیشہ لوٹتے اور اخر میں ہر کوئی اس کا ہمنوا بن جاتا .پروفیسر اسماعیل نے کہا کہ کاش میں وہاں ہوتا تو اج پورے ملک سے انے والے ان تمام کامریڈوں کو سلام پیش کرتا ان کی خدمت کرتا جو جمیل کے لئے دور دراز سے ائے تھے .
 سینئر صحافی شمیم شاہد نے بتایا کہ جمیل مرغز پر اگر کتاب بھی لکھ دی جائے تو کم ہے کیونکہ یہی وہ شخص تھا جس نے اس دھرتی پر ترقی پسند تحریک کو اپنی زبان اپنی تحریر اور اپنی تقریر و مطالعہ سے زندہ رکھا تھا . جنازے میں شرکت کے بعد وائس اف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ قام پرست اور ترقی پسند سیاست کے علمبردار لالا جمیل کو یہ خطہ ہمیشہ یاد رکھے گی .جمیل مرغز کی بہت ساری خوبیوں میں ایک خوبی یہ تھی کہ وہ گروپ بناتے تھے لوگوں کو ساتھ ملاتے اور اپنا ایک حلقہ بناتے جس کی بنا پر اس کا اثر بہت زیادہ ہوتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ جب عوامی نیشنل پارٹی سے گئے تو پورے صوابی کو ہلا کر رکھ دیا اور افتاب شیر پاو کا مرتے دم تک ساتھ دیا .جب اپ ضلعی نائب ناظم تھے تو بہت سارے ترقیاتی کام کئے اور جتنے کام کئے تھے باقاعدہ ان کی ایک تحریری شکل میں رپورٹ بھی شائع کی تھی . روزانہ سویرے دفتر جایا کرتے تھے اور شام تک دفتر میں بیٹھ کر لوگوں کی بے لوث خدمت کرتے تھے .جب سلیم خان ایڈوکیٹ عوامی نیشنل پارٹی میں واپس چلے گئے اور ولی باغ کو ایک بار پھر اپنا مسکن بنایا تو جمیل مرغز سے بھی کہا کہ شیرپاو خان کے قافلے سے ان کے تانگے سے چھلانگ لگاو کیونکہ وہ پاو ہے اور شیر پاو ہی رہے گا.لالا جمیل نے تاریخی الفاظ کہے کہ سلیم مجھے بہت شرمندگی ہوگی جب افتاب خان کہیں گے کہ جمیل تم بھی مجھے چھوڑ گئے حالانکہ میں نے تو پوری پارٹی اپ کے حوالہ کیا ہے . اپ شیرپاو پارٹی کے بانی ارکان میں سے تھے اور پارٹی کا نام جھنڈا منشور یہ سب کچھ قومی وطن پارٹی کے لئے لالا جمیل مرغز نے تیار کئے ہیں.ایک دن درسی کتاب میں ڈاکو کالو خان کا نام دیکھا تو سیخ پا ہو گئے اور پہلے بورڈ چئیرمین ٹیکسٹ کے ساتھ جھگڑا کیا کہ کالوخان تو یوسفزئی قوم کا ملک اور ہیرو ہے اور تم نے اسے ڈاکو بنا دیا ہے . بھرپور مہم چلائی اور اس کتاب سے ڈاکو کالو خان کا نام ختم کیا اور چئیرمین نے معافی بھی مانگی.مرغز کی سرزمین پر کھڑے ہو کر جب افتاب خان شیرپاو فرزند صوابی لالا جمیل مرغز کی دوستی بھادری رفاقت قابلیت کی تعریفوں کے بند جب باندھ رہا تھا تو ہر ایک کی نظر منوں مٹی تلے ان کی قبر پر تھیں کہ آج ہم نے یہ کیسا علم کا خزانہ بھادری و دوستی کا انمول نمونہ پیوند خاک کیا ہے .مشہور ادیب لکھاری استاد اور تاریخ دان نورالامین یوسفزئی نے جمیل مرغز کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ صاف گو سچ گو اور کھرے انسان تھے اور جو کچھ دل میں ہوتا تھا بے دھڑک زبان پر لاتے تھے اور ان کی ایک خوبی یہ تھی کہ دل و دماغ کے جنگ سے ازاد تھے کیونکہ جو فلسفہ دماغ نے قبول کیا اس پر اس کے دل نے اعتراض کی بجائے لبیک کہا اور ہمیشہ اس پر کاربند رہے .میجر عامر کے ساتھ نظریاتی و سیاسی اختلاف کے باوجود پکی دوست تھی اور ہر کام میں میجر صاحب لالا جمیل مرغز کی رائے کو فوقیت دیتے تھے اور دل سے ان کی عزت کرتے تھے اور جب بھی کوئی ادبی سیاسی صحافتی محفل برپا کرتے تھے سب سے پہلے جمیل مرغز کو دعوت دیتے تھے اور پھر ان کی موجودگی میں محفل کشت زعفران بن جاتی تھی کیونکہ محفل کو جمانا محفل کو گرمانا اور محفل کو لوٹنا کوئی اس سے سیکھے . آخر میں سب سے قیمتی رائے جماعت اسلامی کے امیر و سابقہ تحصیل کونسل ریاض علی شاہ کی لکھوں گا جس نے بتایا کہ چھتیس سال پہلے ہم نے ان کے مارکیٹ میں کاروبار شروع کیا اور ان چھتیس سال میں باوجود نظریاتی و سیاسی اختلاف کے اس جیسا سچا بردبار ہنس مکھ معاملہ فہم انسان نہیں دیکھا اور صبح ہی صبح جماعت اسلامی پر مجھے چھیڑنے کے لئے کئی اعتراضات کرتے اور ہم بھی اپنی پارٹی کے حق میں دلائل سے جواب دیتے تھے . ماہنامہ جماعت ترجمان القران کا باقاعدہ خریدتے پڑھتے اور رمضان کو باقاعدہ روزے رکھتے اور تفہیم القران کا مطالعہ کرتے تھے .کمال کی بات یہ ہے کہ اس طویل رفاقت میں کبھی بھی کوئی بدمزگی نہیں ہوئی اور اس انسان کے ساتھ بطور مالک مکان کے بہت اچھا اور بہترین وقت گزرا ..حافظ عبدالمنعم اف صوابی نے بتایا کہ ان کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ کسی مقدمہ کے سلسلہ میں اپنے ایک موکل نے جب قران پاک پر ہاتھ رکھا اور بعد میں ان کو معلوم ہوا کہ اس نے سچ کو چھپانے کے لئے قران پاک پر ہاتھ رکھا تھا تو بہت خفا ہوئے اور جدوجہد کی اور بھر بار کونسل کے توسط سے بیان حلفی ہی کو کافی کیا اور قران مجید کو درمیان میں لانے سے استثنی دیا. یہ اس الہامی کتاب سے اس کی محبت کا ثبوت تھا. مطالعہ کتابیں سیاست امارت جدوجہد کوشش تگ و دو تحریر تقریر ہجوم دوستاں محفلیں شام ڈھلتے مرغز میں چائے کے ادوار اور پھر بڑھاپا کالم نگاری فون پر رابطے پھر بیماری کی شدید دھندلی شام نے رات کے پہر کو یہ جلتا دیا بجھا دیا لیکن دلوں میں خیبرپختومخواہ میں ضلع صوابی میں اپنے علاقہ میں اور تحریکوں کے مطالعہ کے دوران لالا جمیل مرغز ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے .

مزیدخبریں