نالائقو!! عقل کو ہاتھ مارو۔

ڈاکٹرعارفہ صبح خان             
تجا ہلِ عا رفانہ    
میں تواتر سے 22 سال سے یہ بات کہہ رہی ہوں کہ پاکستانی قبر میں اپنا صحت مند ، تر و تازہ اور غیر استعما ل شدہ دماغ لیکر جاتے ہیں جنھیں کیڑے مکوڑے ر غبت سے کھا جاتے ہیں۔پاکستانیوں کے دماغ استعما ل نہ کرنے کے اِس خیال کو با لٓاخر میں نے اپنے ڈا کٹریت کے تھیسز میں ایک نظریے کی صورت میں پیش کیا۔ پاکستان میں 80 فیصد لوگ صرف کھانے آتے ہیں اور اپنا دماغ با لکل استعما ل نہیں کرتے چنانچہ20 فیصد لوگ انھیں اپنی انگلیوں پر نچاتے ہیں۔ وہ آدمی کیا جو اپنے دماغ سے نہ سوچے۔ وہ انسان ہی کیا جوا پنی عقل استعمال نہ کرے۔ وہ بندہ ہی کیا جو خود اپنے اچھے یا بُرے کا فیصلہ نہ کر سکے۔ ہمارے ہاں بھیڑ چال ہے۔ ہر آدمی اندھی عقیدتوں،محبتوں، تقلیدوں کا مارا ہے۔ کو ئی یہ نہیں سوچتا کہ فلاں بات کسی نے کیو ں کی ہے۔ چلو اسکی تصدیق ہی کر لو۔ کسی نے کان بھرے تو بغیر کسی تصدیق اور تحقیق کے اُسی کے پیچھے لگ گئے۔ پھر ایک آدمی نے کسی کی تعریف کر دی تو بیوقوفوں کی طرح سب اُس غلط کو اچھا کہنے لگتے ہیںاور اگر کسی نے جلن حسد رقابت احساس کمتری میں کسی کو بُرا کہہ دیا تو بغیر جانچے پر کھے اُسے بُرا سمجھنے لگتے ہیں۔عقل ا ستعما ل کرنے کی چیز ہے مگر ہمارے ہاں عقل استعما ل کرنے کا رواج نہیں ہے۔ بس اندھی پیروی اور نقالی ہے۔ اسی کم عقلی کی وجہ سے ہمارے ہاں منفی رجحان بڑھ گیا ہے۔ ہر آدمی دوسرے کو تعصب کی عینک لگا کر دیکھتا ہے ۔ کو ئی نہیں سوچتا کہ حقائق کیا ہیں۔ ہزاروں لاکھوں بدعتیں پاکستان میں پروان چڑھ چکی ہیں۔ نعتوں کو انڈین طرزپر گایا جاتا ہے جو سب سے بڑی بے ادبی ہے۔۔۔اسی طرح بزرگانِ دین کے مزاروں پر نئی نئی بدعتوں کو انجا م دیا جاتا ہے اور اتنے پیسے اور قیمتی چڑھاوے چڑھا ئے جاتے ہیں اور قوالوں اور دھمالوں پر نوٹوں کی برسات کی جاتی ہے، لیکن اس ملک میں ہزاروں لاکھوں لوگ جو ہر روز بھوکے سوتے ہیں، اُن کی بھوک اور افلاس کو ختم کرنے کے لئے اُنکی مدد کر نا بہت کم لوگوں کو تو فیق ملتی ہے۔ غریب اور نادار عورتوں اور بچوں کے جسموں پر پہننے کے لیے کپڑے نہیں ہوتے، پینے کے لیے صاف پانی نہیں ہوتا، علاج معالجے کے لیے ذرائع نہیں ہوتے۔ لیکن لوگ محض دکھاوے نمائش کے لیے بار بار عمرے اور حج کرتے ہیںاو ر اس بہانے شا پنگ اور کاروبار کرتے ہیں۔ اگر آپ نے ایک مرتبہ حج یا عمرہ کر لیا ہے تو اگلی مرتبہ حج یا عمرے کی نیت کر کے یہ پیسہ کسی بیوہ یا یتیم بچوں کی کفالت پر لگا دیں۔ غریب، نادار یتیم و یسیرلڑکیوں کا جہیز بنا دیں یا کسی بیوہ یا معذور اپا ہج کی مدد کر دیں یا کسی مستحق مریض کا علاج کرا دیں۔ لیکن کو ئی ایسا نہیں کرتا۔ ہندﺅوانہ رسمیں تو اپنا لیتے ہیں۔ اگر ہندﺅوں سے اتنے متا ثر ہیں تو اُنکے بے شمار اچھے کاموں کی تقلید کیوں نہیں کرتے۔ وہ لوگ اپنے مذہب، اپنے وطن، اپنے عقیدتوں، نظریوں، رسموں اور اپنے لوگوں سے مخلص ہیں۔ وہ ہمیشہ اپنے کاموں اپنی ذمہ داریوں کو فوکس کرکے ایشیا کا دوسرا بڑا ملک بن چکے ہیں۔ وہ نہ کسی سے ادھار مانگتے ، نہ قرضے لیتے، نہ بھیک مانگتے۔ آج دنیا کے بیس ممالک میں انڈیا کے کھربوں روپے کے کاروبار ہیں اور انڈین دنیا بھر کے اہم اداروں میں اہم حساس پوسٹوںپر تعینات ہیں۔ ہمارے ٹی وی چینلز دیکھیں جن میں ایک کام کا ٹا ک شو نہیں ہوتا۔ ہر وقت عمران خان، نواز شہباز، آصف زرداری، فضل الرحمان کے کسی لا یعنی بیان پر تبصرے تجزیے روزانہ کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ کسی ایک ٹا ک شو میں اہم عوامی مسئلے کے حل کی بجائے مسئلے میں سے مسئلے نکالے جاتے ہیں۔ ہمارے ٹاک شو ز مداری کے کرتب بن چکے ہیں۔ ہر بندہ اپنے اپنے کرتب دکھا کر ، الزام تراشیاں کر کے اور بد زبانیوں کے مظا ہرے کر کے چلا جاتا ہے۔ کو ئی مفید، کارآمد، مثبت یا نتیجہ خیز گفتگو نہیں کرتا۔ سیا سی پارٹیاں ایک دوسرے کے لتّے لیتی ہیں۔ گا لم گلوچ ہو تی ہے اور کبھی کبھار تو ہاتھا پائی بھی ہو جاتی ہے۔ ریٹنگ کے سارے منفی اور گھٹیا طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ہمارے ٹی وی ڈرامے دیکھیں تو انتہائی وا ہیات، تھرڈ کلاس، گھسِے پٹے مو ضوعات ہیں۔ ساسیں ہر وقت بہوﺅں کی زندگیاں اجیرن رکھتی ہیں۔ بیٹوں کو ورغلاتی اور طلاقیں کرواتی ہیں۔ ہر دوسرے ڈرامے میں شوہر کا کسی اور سے چکر چلا ہوتا ہے۔ کبھی اپنی سالی پر عا شق ہو جاتا ہے تو کبھی لڑکی امیر بننے کے لیے اپنے بڈھے شا دی شدہ با س کو پھنسا لیتی ہے۔ شادی کے بعد بھی ناجائز معا شقے چلائے جاتے ہیں۔ شوہر بیوی کو اور بیوی شوہر کو بیوقوف بنا تے ہیں۔ مطلب پورے پاکستان میں اسکے علاوہ کو مو ضوع نہیں ہے۔ یہ تمام مو ضوعا ت معاشرے کو تباہی کو طرف دھکیل رہے ہیں۔ جرائم اور افیئرز کی خبریں صفحہ اول پر لگا ئی جاتی ہیں۔ اغواءقتل ڈکیتی زنا بد کاری کی خبریں نمایاں کر کے دکھائی جاتی ہیں۔ سیاستدانوں، کھلاڑیوں، اداکاروں کی دوسری تیسری شا دی یا معا شقوں کی خبریں صفحہ اول کی زینت بنتی ہیں اور نیوز چینلز پر بار بار دکھا ئی جاتی ہیں۔ مختلف ٹی وی شوز جو پر بڑے بڑے انعامات دئیے جاتے ہیں وہ کھیل تماشوں پر دیئے جاتے ہیں۔ مردوں عورتوں سے عجیب ہونق کام کرائے جاتے ہیں جنکا کوئی مقصد نہیں ہوتا۔ لاکھوں کا سونا گاڑی کیش اور دیگر قیمتی انعامات انتہا ئی احمقانہ حرکتوں پر دیئے جاتے ہیں۔ ایک پروگرام تماشہ جو ایک مشہور انڈین پروگرام کی ہو بہو نقل ہے جس میں صرف بیہودگی ہو تی ہے۔ پہلے نیلام گھر اور کسوٹی جیسے بہترین، معیاری علمی ادبی کار آمد پروگرام لگتے تھے۔ مارننگ شوز میں صرف اداکار، کھلاڑی اورسیاستدان بُلائے جاتے ہیں۔ کسی بھی طرح کا پروگرام ہو۔ یہی لوگ مہمان ہوتے ہیں اور آئیں با ئیں شا ئیں کر کے چلے جاتے ہیں۔ سار ا فوکس فیشن شا دیوں افئیرز اور اپنی ذاتی پروجیکشن پر ہو تا ہے۔ دوسری طرف انڈیا کا کو ئی بھی پروگرام اٹھالیں۔ وہ با قاعدہ اپنی قوم اور خصوصاً نوجوان نسل کی تربیت کرتے ہیں اور اُنکی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ انھیں مثبت سرگرمیوں پر راغب کرتے ہیں۔ تعمیری سوچ پیدا کرتے ہیں۔ امیتا بچن کا کروڑ پتی پروگرام پورے ایشیا بلکہ دنیا بھر میں مشہور و مقبول ہے۔ بھارت کے غریب، یتیم ضرورتمند اور پسماندہ لوگوں کو اس پروگرام میں تر جیح دی جاتی ہے۔ ہر پروگرام میں ذہانت کے بل بوتے پر لاکھوں کروڑوں روپے انعام دیتے ہیں۔ اُنکا کرائم کنٹرول پروگرام حقیقی کرائم کی کہانیوں پر مبنی زبردست آگہی پیدا کرنے والا پروگرام ہے جس میں بڑی بڑی سچی اور انتہائی پییچیدہ کرائم سٹوریوں کا بڑے تکنیکی ،مہارت اور جدید ٹیکنالوجی کی بنیا د پر سوراخ لگا یا جاتا ہے اور معاشرے میں انصاف اور امن قائم کرنے کی راہ ہموار کی جاتی ہے۔ پھر موسیقی کے پروگرامز سے انہوں نے ہزاروں بہترین سنگرز پیدا کر کے منوایا ہے کہ دنیا میں بھارت گا ئیکی میں سب سے بڑا ملک ہے۔ اُنکے ڈانس پروگرامز دیکھ کر ہر انسان کو موسیقی سے دلچسپی ہو جاتی ہے۔ رقص اعضا ءکی ایکسر سائز ہے۔ وہاں بوڑ ھے بھی رقص کرتے ہیں اورہمارے ہاں فتوے لگنے لگتے ہیں۔ بزرگوں پیروں فقیروں کے مزاروں اور آستانوں پر جو غیر شرعی بدعتیں اور بدکا ریاں ہو تی ہیں۔ اُن پر آجتک فتویٰ یا پابندی نہیں لگی۔ بھارت کی فلم حقیقی مسا ئل کی عکاسی کرتی ہے جبکہ ہمارے ہاں عشق معاشقوں کے علاوہ کو ئی مو ضوع نہیں۔ انڈیا میں عوام میں منفی سوچ کو رُوکا جاتا ہے اور مثبت سوچ کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں منفیت کا یہ عالم ہے کہ سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کی قبر کھودتی رہتی ہیں۔ کسی کی جیت ، خوشی، کامیابی، ترقی دوسرے کے گھر میں ماتم بن جاتی ہے۔ حکومتیں آتی ہیں۔ وسائل ، اختیارات، اقتدار، طاقت کے با وجود عوام کے لیے ایک بھی ڈھنگ کا کام نہیں کرتیں۔ اختیارات کا رُخ مخالف جماعتوں کا سر کُچلنے میں لگائے رکھتی ہیں یا اپنے اثا ثے بڑھاتی ہیں۔ پاکستان میں منفی طا قتیں اپنی اپنی عقل استعمال نہ کرنے کی وجہ سے بڑھ رہی ہیں۔ جب دماغ ہی مینڈک جتنا ہو گا تو آدمی حقا ئق تک کیسے پہنچ سکتا ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...