جیو اکنامک مفادات کیلئے بحریہ کو مضبوط بنانا ہوگا، صدر زرداری

چوہدری منور انجم
نقطہ نظر
صدر مملکت آصف علی زرداری مستقبل بین ہیں جو آنے والے وقت اور سماجی و معاشی حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ پاکستان کو مستقبل میں کن چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس کا اظہار انہوں نے گزشتہ دنوں پاکستان بحریہ کی ایک تقریب کی صدرات کے دوران خطاب کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ پاک بحریہ میں 2نئے بحری جہازوں کی شمولیت کی تقریب کے دوران صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا کہ جہازوں کی بحری بیڑے میں شمولیت سے دفاعی صلاحیت مزید مضبوط ہوگی، پی این ایس بابر اور حنین جدید نظام سے لیس ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی خودمختاری‘امن، خوشحالی اور استحکام برقرار رکھنے، مادر وطن کا ہر قیمت پر دفاع کرنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ یوم دفاع اور شہداءہمیں ہماری مسلح افواج اور شہریوں کے حوصلے، اتحاد اور عزم کی یاد دلاتا ہے‘ملکی سمندری حدود کے دفاع کیلئے مضبوط بحریہ ناگزیر ہے‘ملک کے جیو اکنامک مفادات کے تحفظ کیلئے پاک بحریہ کو مضبوط بنانا ہوگا‘مسلح افواج کسی بھی بیرونی جارحیت سے نمٹنے کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں۔ صدر مملکت نے ان خیالات کا اظہار جمعہ کو کراچی میں 2نئے بحری جنگی جہازوں پی این ایس بابر اور حنین کی پاک بحریہ کے بیڑے میں شمولیت کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب میں ترکیہ کے ڈپٹی منسٹر آف نیشنل ڈیفنس بلال بردالی، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا، چیف آف دی نیول اسٹاف ایڈمرل نوید اشرف، کنسٹرکشن یارڈز کے اعلیٰ نمائندوں، مسلح افواج کے اعلیٰ حکام اور سیاسی قیادت نے شرکت کی۔ پی این ایس بابر ایک کثیر المقاصد جہاز ہے جو 23 ستمبر 2023 کو استنبول نیول شپ یارڈ میں بنایا اور شروع کیا گیا،پی این ایس حنین ایک آف شور گشت کرنے والا جہاز ہے جو 25 جولائی 2024 کو رومانیہ کے ڈیمین شپ یارڈ میں بنایا اور کمیشن کیا گیا۔ صدر مملکت نے پی این ایس بابر اور حنین کی پاکستان نیوی کے بیڑے میں شمولیت کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ دونوں جہاز پاک بحریہ کی بڑھتی آپریشنل ذمہ داریاں پورا کرنے میں مدد دینگے، جہاز ترکیہ کے ساتھ ہماری مضبوط دوستی، رومانیہ میں ڈچ ڈیمین شپ یارڈ پر اعتماد کی علامت ہیں‘جہازوں سے پاک بحریہ کی ملکی سمندری حدود کے دفاع کی صلاحیت میں مزید اضافہ ہوگا۔ انہوں نے میری ٹائم سکیورٹی، علاقائی استحکام، سمندری راستوں کی حفاظت میں پاک بحریہ کے کردار کو سراہا اور کہا کہ پاک بحریہ بحری تجارت کی مسلسل ترسیل کو یقینی بنا رہی ہے۔
2نئے جنگی بحری بیڑوں پی این ایس بابر اور حنین کی انڈکشن تقریب میں صدر آصف علی زرداری بطورمہمان خصوصی شریک ہوئے۔صدر مملکت آصف علی زرداری نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یوم دفاع پر تقریب کا انعقاد باعث فخر ہے، یوم دفاع ہمیں اتحاد اور بہادری کی یاد دلاتا ہے، 6ستمبر کو مسلح افواج اور قوم نے جارحیت کا بہادری سے مقابلہ کیا تھا۔ بہادر جوانوں نے مادر وطن کے دفاع کے لیے شہادت قبول کی۔صدر مملکت نے کہا کہ کسی بھی جارحیت سے نمٹنے کے لیے مسلح افواج ہمہ وقت تیار ہیں، پاکستان کو مضبوط نیوی کی ضرورت ہے، خطے کی سلامتی کے لیے پاک بحریہ کا کردار اہم ہے۔
 اسی طرح پی این ایس حنین کی تعمیر ڈامین شپ یارڈ رومانیہ میں کی گئی، اس جہاز کی کمیشننگ کی تقریب رواں برس جولائی میں رومانیہ میں منعقد ہوئی۔ پی این ایس حنین کثیرالمقاصد، انتہائی سبک رفتار جنگی بحری جہاز ہے جو ٹرمینل ڈیفنس سسٹم کے ساتھ ساتھ جدید ترین الیکٹرانک وارفیئر، اینٹی شپ اور اینٹی ایئر وارفیئر کی صلاحیتوں کا بھی حامل ہے۔ یہ جہاز ملٹی رول ہیلی کاپٹر کے ساتھ لمبے عرصے تک سمندر میں متعدد آپریشنز سرانجام دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔واضح رہے یرموک کلاس کے 4جہازوں کو اسلامی تاریخ کی اہم جنگوں سے منسوب کیا گیا ہے، اس ٹائپ کے پہلے 2جہاز پی این ایس یرموک اور پی این ایس تبوک پہلے ہی پاک بحریہ میں شامل کیے جاچکے ہیں۔ جبکہ یرموک کلاس کا چوتھا اور آخری جہاز پی این ایس یمامہ رواں برس فروری میں لانچنگ کے بعد تکمیل کے مراحل سے گزر رہا ہے۔
’جب سے انسان نے معاشی سرگرمیوں کا آغاز کیا، تب سے پانی کے ذریعے تجارت کا کلیدی کردار رہا۔ آج دنیا کی 90 فیصد تجارت پانی کے ذریعے ہی ہوتی ہے اور اس میں دریا اور سمندر دونوں شامل ہیں۔‘ صرف سمندر اور دریا کے ذریعے سامان کی تجارت اس میں شامل نہیں بلکہ بلیو اکانومی کا تصور بہت وسیع ہے کہ جس میں ماہی گیری اور اس میں پکڑی جانے والی سمندری پراڈکٹس کی پراسیسنگ اور ان کی تجارت اور برآمدات شامل ہیں۔ اس میں جہاز رانی کا شعبہ اور شپ بریکنگ انڈسٹری بھی شامل ہے۔ بلیو اکانومی مینگرووز کا بھی احاطہ کرتی ہے اسی طرح ساحلی علاقے اور اس کی سیاحت کا شعبہ بھی اس میں شامل ہے۔ اس میں آف شور آئل بلڈنگ تو سمندر کی تہہ سے تیل نکالنا بھی شامل ہے۔ اسی طرح میرین بائیو ٹیکنالوجی بھی اس میں شامل ہے۔ ماہرین کے مطابق جس طرح کسی ملک کی معیشت کا اندازہ اس کے جی این پی یعنی گراس نیشنل پراڈکٹ سے لگایا جاتا ہے کہ اس کی مجموعی مالیت کتنی ہے تو بلیو اکانومی کی ویلیو معلوم کرنے کے لیے گراس میرین پراڈکٹ یعنی جی ایم پی کا اطلاق کیا جاتا ہے۔
پاکستان وسط ایشیائی ریاستوں کے لیے سمندری تجارت کا سب سے موزوں راستہ فراہم کرتا ہے، ان ریاستوں نے پاکستان کی بندرگاہوں کے استعمال میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا ہے، جدید نظام اور بندرگاہوں تک آسان رسائی کی بدولت پاکستان اربوں ڈالر کا زرمبادلہ کما سکتا ہے۔بلاشبہ دنیا کی معیشت میں تجارت کا اہم ترین ذریعہ بحری بندرگاہیں اور راہداریاں ہیں، اقوام کی تاریخ دیکھیں تو بحری تجارت پر خصوصی توجہ دینے والے ممالک نے نمایاں ترقی کی اور دنیا کے کئی خطوں میں اپنے مفادات کے لیے اثر و رسوخ قائم کرنے میں بھی کامیاب رہے۔ آج سمندروں کے راستے 80 فی صد عالمی تجارت ہوتی ہے اور ترقی یافتہ ممالک میں یہ تناسب اس سے بھی زیادہ ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی تجارت کا70 فی صد سے زائد حصہ بحری تجارت سے وابستہ ہے۔پاکستان کی ساحلی پٹی ایک ہزار چھیالیس کلومیٹر پر محیط ہے، ملک میں تین فعال بندرگاہیں موجود ہیں، گوادر پورٹ کے ساتھ خطے کا اہم ترین منصوبہ پاک چین اقتصادی راہداری زیر تعمیر ہے جس کی تکمیل سے چین اور وسط ایشیائی ممالک کو پاکستان کے تعاون سے دنیا بھر سے تجارت کے لیے بیک وقت زمین اور بحری تجارتی راہداری دستیاب ہوگی۔ ملک کی بحری معیشت کو مستحکم بنا کر ملک کی مجموعی قومی پیداوار کو تین گنا تک لے جایا جاسکتا ہے۔
 صدر مملکت کے ویڑن کے مطابق حکومت کو سب سے پہلے خود آگے بڑھنا ہو گا کیونکہ بلیو اکانومی میں مہنگی سرمایہ کاری کے لیے حکومت خود قدم بڑھائے گی تو اسی صورت میں نجی سرمایہ کاری آئے گی۔ اس کے ساتھ ہی بلو اکانومی پاکستان کی معاشی صورت حال میں بہت مدد گار ہو سکتی ہے اگر پاکستان نیوی کو تمام جملہ سہولتہں فراہم کر دی جائیں۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...