" چن" کتھاں گزاری آئی رات وے

شاہد نسیم چوہدری ٹارگٹ
0300-6668477
کہتے ہیں کہ نادان دوست سے عقلمند دشمن بہتر ہے،۔۔۔،جسکی آج واضح مثال بھی مل گئی۔۔۔،اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے حالیہ جلسے میں، علی امین گنڈاپور کے بیانات نے سیاسی اور سماجی حلقوں میں شدید بحث و مباحثہ کو جنم دیا۔ گنڈاپور نے اپنے خطاب میں خواتین کے بارے میں غیرمہذب ،نازیبا زبان استعمال کی،ویسے اس طرح کی باتیں اس جماعت کیلئے نئی نہیں ہیں،انکے لیڈر سے لے کر ایک عام ورکر تک اس طرح کی باتیں کرنا۔۔۔۔انکی جماعت کا خاصہ ہے۔۔، حکومت کو دھمکیاں دیں کہ خدا کی قسم اگر عمران خان کو نہ چھوڑا تو وہ خود جیل توڑ کر انہیں آزاد کرائیں گے۔ نادان دوست کے ان خطرناک بیانات کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے فوری طور پر ردعمل دیا اورجلسہ ختم ہوتے ہی گنڈاپور کو بلا کر تقریں 9 گھنٹے انکی تقریر اور مختلف حوالوں سے "تسلی" کے ساتھ پوچھ گچھ کی گئی،انکے تمام فون بند رہے،رابطہ مکمل منقطع رہا ،اور پابند کر دیا اور "اجھے"طریقے سے سمجھایاگیا،اور خاطر تواضع کی گئی۔۔۔،"سمجھنے" کے بعد سٹیج والا "پرجوش" گنڈا پور کمرے میں بالکل "خاموش" ہوچکا تھا،بعد ازاں جناب کے اپنی غلطی تسلیم کرنے پر غیر مشروط معافی مانگنے اور آئندہ ایسے بیانات نہ دینے کی یقین دہانی پر انہیں جانے کی اجازت دے دی گئی،۔علی امین گنڈاپور، جو کہ خیبر پختونخواہ کے وزیر،اعلی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اہم رہنماوں میں شمار ہوتے ہیں، نے حالیہ جلسے میں جو متنازعہ اور سنسنی خیز خطاب کیا تھا،خواتین کے بارے میں نہ صرف غیر مہذب زبان استعمال کی بلکہ حکومت کو بھی دھمکی دی کہ اگر عمران خان کو رہا نہیں کیا گیا تو وہ جیل توڑ کر انہیں آزاد کرائیں گے، اس بیان نے تحریک انصاف اورعمران خان کی مشکلات میں اور اضافہ کر دیا، گنڈاپور کا یہ بیان سیاسی اور سماجی حلقوں میں تنقید کا نشانہ بنا اور ان کے بیانات نے ملک بھر میں ایک ہنگامہ برپا کر دیا۔علی امین گنڈاپور کے خطاب میں خواتین کے بارے میں استعمال کی جانے والی زبان نے خاص طور پر توجہ حاصل کی۔ ان کے بیانات کو خواتین کے حقوق اور ان کی عزت و احترام کے حوالے سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ بات اہم ہے کہ سیاسی رہنماوں کو اپنی تقاریر میں ایسی زبان استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہئے جو سماجی روایات اور اخلاقیات کے خلاف ہو۔ خواتین کے بارے میں اس طرح کی زبان استعمال کرنا نہ صرف ان کی تذلیل ہے،بلکہ بات کرنے والے کی اپنی شخصیت بھی آشکار ہوتی ہے، اس سے معاشرتی برائیوں کو بھی فروغ ملتا ہے۔گنڈاپور کی جانب سے حکومت کو دی جانے والی دھمکیوں اور "نادانیوں" نے اسٹیبلشمنٹ اور حکومتی حلقوں میں شدید تشویش پیدا کی۔ یہ دھمکی واضح طور پر ایک سیاسی بحران کو بڑھانے اور ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش نظر آتی ہے۔ سیاسی رہنماوں کی طرف سے اس طرح کی دھمکیوں کا اظہار، خاص طور پر جب وہ جیل میں قید کسی سیاسی شخصیت کی حمایت میں ہوں، قومی سلامتی اور قانون کی حکمرانی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے،گنڈاپور کے بیانات کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے فوری طور پر کارروائی کی اور انہیں کوہسار میں ایک میٹنگ میں پابند کر دیا۔ اس اقدام نے یہ ظاہر کیا کہ ریاستی ادارے سیاسی رہنماوں کے مکک،فوج بارے اشتعال انگیز بیانات ،کے خلاف سخت موقف اختیار کر رہے ہیں اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ پابند کرنے کا اقدام ایک مضبوط پیغام تھا کہ قانون اور نظم و ضبط کو برقرار رکھنا ہر صورت میں ضروری ہے،گنڈاپور کی طرف سے معافی مانگنے اور آئندہ ایسے بیانات نہ دینے کی یقین دہانی کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا۔ یہ معافی اور یقین دہانی ایک طریقہ کار ہے جس کے ذریعے سیاسی بحران کو کم کرنے کی کوشش کی گئی۔ رہائی کے بعد، یہ واضح ہوتا ہے کہ ریاستی ادارے اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ سیاسی رہنماوں کے بیانات کے اثرات محدود رہیں اور معاشرتی امن و امان برقرار رہے،گنڈاپور کے بیانات اور ان کے بعد کے اقدامات نے سیاسی اور سماجی سطح پر مختلف اثرات مرتب کیے ہیں۔ سیاسی طور پر، اس واقعے نے ملک میں سیاسی کشیدگی کو مزید بڑھا دیا اور پی ٹی آئی کے مخالفین نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ سماجی طور پر، خواتین کے بارے میں نازیبا زبان کے استعمال نے خواتین کے حقوق کی تنظیموں اور سماجی کارکنوں کو متحرک کر دیا اور انہوں نے اس پر شدید ردعمل ظاہر کیا،اس واقعے کے بعد، یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ سیاسی رہنماوں کے بیانات پر مزید نگرانی رکھی جائے گی اور ایسے بیانات کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی جو قانون اور اخلاقیات کے خلاف ہوں۔ اس کے ساتھ ہی، سیاسی جماعتوں اور رہنماوں کو بھی یہ سبق سیکھنا ہوگا کہ کسی بھی معاملے میں ایسی زبان استعمال کرنے سے گریز کریں جو قوم میں تناو اور تقسیم پیدا کرے۔علی امین گنڈاپور کے اسلام آباد جلسے میں دیے گئے بیانات اور ان کے بعد کے اقدامات نے پاکستانی سیاست میں "بدمعاشی کلچر" کو فروغ دیا۔ خواتین کے بارے میں نازیبا زبان اور حکومت کو دھمکیاں دینا ایک سنگین مسئلہ تھا، جس پر فوری اور موثر کارروائی کرتے ہوئے لا اینڈ آرڈر ایجنسیوں کی بروقت کاروائی کرنا لائق تحسین ہے، اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے فوری ردعمل اور گنڈاپور کی معافی کے بعد، یہ امید کی جا سکتی ہے کہ آئندہ سیاسی بیانات میں ذمہ داری اور احتیاط برتی جائے گی تاکہ ملک میں امن و امان برقرار رہے اور سیاسی فضا معتدل رہے۔اس سارے واقعے نے نصرت فتح علی خان کی قوالی اور عطااللہ عیسی خیلوی کے گیت کے اشعار یاد کرا دئے۔۔۔۔میں نے پوچھا کہ کل شںب کہاں تھے۔۔۔پہلے شرمائے۔۔پھر ہنس کے بولے۔۔بات کیوں ایسی تم پوچھتے ہو۔۔جو بتانے کے قابل نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔،"چن" کتھاں گزاری آئی رات وے۔۔۔۔۔،

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...