بنگلہ دیش کے ایک اور کرکٹر کے خلاف بھی قتل کا مقدمہ درج
بنگلہ دیش میں حکومت کی تبدیلی سے لگتا ہے وہاں کی کرکٹ ٹیم کو تو راس آگئی ہے۔ اس نے اپنے دورہ پاکستان میں زبردست پرفارمنس دکھا کر ٹیسٹ سیریز جیت لی۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے کرکٹرز کو یہ تبدیلی زیادہ راس نہیں آئی ہے۔ ویسے بھی کھلاڑی کھیل کے میدان میں سجتے ہیں سیاسی میدان میں مرد بحران بننا سب کے بس کی بات نہیں۔ اگرمقبولیت ہی شرط اول ہو تو پھر فٹبال کے سارے کھلاڑی. سیاسی میدان میں چھائے ہوتے۔ بنگلہ دیش کے ایک ہونہار کھلاڑی اور سابق کپتان شکیب الحسن کے خلاف بنگلہ دیش میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران ایک شخص کے قتل کا مقدمہ درج ہوا ہے۔ وہ تو پاکستان کا دورہ مکمل کرنے کے بعد واپس وطن جانے کی بجائے دبئی چلے گئے۔ یہ اچھا سسٹم ہے کہ پاکستان‘ بھارت اور بنگلہ دیش کے متمول لوگ . خواہ سیاست دان ہوں یا تاجر‘ صنعت کار ہوں یا فنکار یا پھر کھلاڑی‘ انہوں نے احتیاطاً دبئی میں گھر یا فلیٹ خرید رکھا ہوا ہے تاکہ کسی بھی ناگہانی صورتحال میں وہاں جا کر قیام کیا جا سکے۔ سو شکیب الحسن تو دبئی چلے گئے۔ اب گزشتہ روز بنگلہ دیشی کرکٹ ٹیم کے ایک اور سابق کپتان مشرفی مرتضیٰ پر بھی ان ہنگاموں کے دوران قتل کا مقدمہ درج ہوا ہے۔ ان میں انکے ساتھ دیگر افراد بھی ملوث ہیں۔ اب دیکھنا ہے وہ کیا کرتے ہیں۔ وطن میں مقدمہ کا سامنا کرتے ہیں یا وہ بھی کسی اور ملک چلے جاتے ہیں۔ یہ دونوں بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم حسینہ واجد کے حمایتی تھے۔ اب انہیں بھی بھگتنا پڑ رہا ہے۔ تاہم ایک اچھی بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم کے تمام کھلاڑیوں نے ان مقدمات کیخلاف اپنے ساتھیوں کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور مشرفی مرتضیٰ تو کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد عوامی لیگ میں شامل ہو کر رکن پارلیمنٹ بھی رہ چکے ہیں جبکہ شکیب الحسن نے اس حوالے سے زبان بند رکھی ہے اور خاموش ہیں۔ مگر لگتا ہے انہیں اپنی ٹیم کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
ٹرمپ سے پہلا مباحثہ‘ کمیلا ہیرسن نے کاپلہ بھاری رہا۔
لگتا ہے ایک مرتبہ پھر امریکی الیکشن کے عوام سے سروے کرنے والوں کی دکانداری ماٹھی رہے گی۔ اطلاع یہ تھی کہ ٹرمپ کو سروے کے مطابق کمیلا پر برتری ہے‘ چاہے معمولی سی سہی‘ مگر دیکھ لیں پہلا معرکہ ہی کمیلا نے بہرحال جیت لیا۔ تیکھے‘ ترش سوالات کی وجہ سے اور برجستہ جوابات کی وجہ سے یہ مباحثہ لاکھوں امریکی ووٹرز نہایت شوق سے دیکھتے اور سنتے ہیں۔ یہ مباحثے رائے عامہ کو ہموار کرنے اور ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہماری طرح امریکہ میں سارا سارا دن ساری ساری رات جلسے جلوس نہیں ہوتے‘ ریلیاں نہیں نکلتیں، سڑکیں بلاک نہیں ہوتیں‘ دیگیں نہیں کھلتیں‘ نان کباب نہیں ملتے‘ وہاں مقررہ مقامات پر اجتماع ہوتے ہیں‘ اسکے علاوہ یہ ٹی وی مباحثے ان الیکشنوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جوبائیڈن کی صدارتی مہم سے دستبرداری کے بعد کمیلا نے میدان سنبھالا اور پہلا مورچہ ہی جیت لیا۔ ویسے تو ٹرمپ کا مقابلہ کرنا آسان نہیں‘ وہ نہایت منہ پھٹ قسم کے مقرر بھی ہیں جبکہ کمیلا ایک خاتون ہیں مگر جس طرح انہوں نے ٹرمپ کو انہی کی زبان میں ترکی بہ ترکی جواب دیئے اور سوال کئے‘ وہ جوڑ برابر کا لگا۔ امریکی معیشت‘ سیاست‘ فلسطین‘ اسرائیل روس‘ یوکرائن کسی بھی مسئلے پر دونوں کا یوں کہہ لیں‘ ہاتھی اور گدھے کا زبردست مقابلہ رہا۔ اس میں بے شک معمولی برتری سے کمیلا نے بہرحال خلاف توقع کامیابی حاصل کرکے بہت سے انتخابی سروے غلط ثابت کر دیئے۔ مگر عوامی حمایت میں اب بھی ٹرمپ کو برتری حاصل ہے۔ اگلے مباحثے میں دیکھتے ہیں دونوں فریق کو نسے نئے ہتھیار استعمال کرکے ووٹروں کو بے وقوف بناتے ہیں یعنی ان کا دل جیتے ہیں۔ بہرحال گدھا آئے یا ہاتھی‘ پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک کو ان سے خیر کی امید بہت کم ہے۔ کیونکہ گدھا ہمیشہ دولتی مارتا آیا ہے جبکہ ہاتھی پا?ں تلے کچلتا رہا ہے۔ آگے بھی وہ یہی کرتے رہیں گے۔ جب تک مسلم ممالک متحد نہیں ہوتے۔
تمام ارکان قومی اسمبلی کے دل میں اچانک ایوان کی محبت جاگ اٹھی۔
بڑی حیرت ہوتی ہے‘ پی ٹی آئی کے منہ سے پارلیمنٹ کے تقدس کی باتیں سن کر۔جس پارلیمنٹ کے تقدس کی دہائی دی جارہی ہے۔ اسے یہی لوگ اسی پارلیمنٹ میں بیٹھ کر ناجائز فارم 47 کی پیداوار قرار دیتے ہیں اور اسے تسلیم ہی نہیں کرنے کے دعوے کرتے ہیں۔ آج جب اپنی باری آئی تو وہی ناجائز فارم 47 کی پیداوار پارلیمنٹ انہیں مقدس ایوان نظر آنے لگا ہے۔ یہ عجیب فلسفہ ہے۔ یہی بات جب مولانا فضل الرحمان نے کی تھی کہ یہ پارلیمنٹ ہی اب ایوان ہے‘ چاہے 45 کی ہے یا فارم 47 کی‘ اسے تسلیم کرتے ہیں تو ہم سب اس میں بیٹھے ہیں۔ اب اسی میں بیٹھ کر ہم نے مسائل کا حل تلاش کرنا ہے۔ اس پر تو بہت سے ماتھوں پر شکنیں نمودار ہوئی تھیں اور بہت سوں نے ناک بھوں چڑھائی تھی۔ کوئی اور اسے مقدس ایوان کہے تو غلط‘ اب خود پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کہیں تو یہ درست کیسے ہو گیا۔ یہ تو وہی میٹھا میٹھا ہپ ہپ‘ کڑوا کڑوا تھو تھو والی بات ہے۔ اب اس سے زیادہ پارلیمنٹ کی بے توقیری کیا ہوگی کہ اندر والے اسے جعلی اسمبلی کہتے ہیں اور باہر والے مقدس نہیں سمجھتے‘ یوں بے توقیر تو ارکان اسبملی ہی ہوئے جو 45 والے ہیں یا فارم 47 والے۔ انہیں چوزوں کی طرح جب چاہے کوئی اچک کر لے جانے میں کامیاب ہوتا ہے۔ بیرسٹر گوہر نے نجانے شاید جاسوسی کہانی پڑھی ہو‘ کہ گزشتہ روز 10 نقاب پوش افراد نے ایوان میں داخل ہو بجلی بند کر کے انکے دس ممبران اسمبلی کو اٹھا کر لے گئے۔ حیرت ہے کہ کسی نے مزاحمت نہیں کی۔ خود بیرسٹر صاحب نے یہ کہہ کر اپنا دامن بچالیا کہ انہوں نے خود پارلیمنٹ کے دروازے پر جا کر گرفتاری دی تھی۔ مروت کو تو پولیس والے گاڑی سے نکال کر لے گئے تھے اور شعیب شاہین کو دفتر سے اٹھایا گیا۔ اب ان دس کو کون نقاب پوش لے گئے‘ پتہ کرنا ضروری ہے۔
جیکب آباد میں خاتون پولیو ورکر سے زیادتی۔
بڑی عجیب بات ہے ہمارے ہاں جب بھی کوئی اچھا کام شروع ہونے لگتا ہے‘ ہمارے مخالف اس کوشش کو ناکام بنانے پر تل جاتے ہیں۔ چاہے سی پیک کا معاملہ ہو یا گوادر پورٹ کا‘ اب پولیو مہم کو دیکھ لیں۔ یہ پاکستان کے مستقبل کے دشمن اب اس مہم کو بھی ناکام بنانے کیلئے ہر ممکن کوششیں کررہے ہیں۔ یہ سلسلہ کافی عرصہ سے جاری ہے۔ کبھی مذہب کے نام پر‘ کبھی اولاد میں بندش اور کبھی حرام ویکسین کا پراپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجودہ جب یہ وار ناکام رہا تو ان دشمنوں نے پولیو کے قطرے پلانے والے عملے پر حملے شروع کر دیئے۔ جس میں کئی مرد و خواتین پولیو ورکر شہید ہوئے۔ اس پر حکومت نے ورکرز کی حفاظت پر پولیس اہلکار تعینات کئے تو یہ دشمن پھر بھی باز نہیں آئے اور انہوں نے دور دراز علاقوں میں ان کو بھی شہید کرنا شروع کر دیا۔ یہ تو دیہی اور دور دراز علاقوں میں دشمن کر رہا ہے۔ دوسری طرف شہروں میں ان دشمنوں کے سہولت کار بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ انکے بہکاوے میں آکر کئی ہزار شہری اپنے بچوں کو پولیو سے بچاﺅ کے قطرے نہیں پلا رہے جس کی وجہ سے یہ مرض ابھی تک افغانستان کے بعد پاکستان میں بھی موجود ہے۔ ایسے حملے زیادہ تر خیبر پی کے میں ہو رہے ہیں۔ بہتر ہے اب بچوں کو قطرے نہ پلانے والوں کو جرمانہ کیا جائے۔ اور حملے کرنے والوں کو فوری سزا دی جائے جبکہ نواب شاہ سندھ میں تو اب اوباش افراد نے ورکر خاتون سے زیادتی کرکے جو گھناﺅنا جرم کیا ہے‘ وہ تو قطعی قابل معافی نہیں۔ انہیں سخت اور فوری سزا دی جائے۔ جبکہ سندھ کے سیلاب والے علاقوں میں یہی بہادر ورکرگھٹنوں گھٹنوں پانی میں سفر کرکے اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں اور ہمارے بچوں کو معذوری سے بچا رہی ہیں کیا ہم ان کی عزت و حرمت کا تحفظ بھی نہیں کر سکتے تو یہ شرم سےڈوب مرنے کا۔مقام ہے۔۔۔