بہت سے لوگ اگرچہ ابھی تک یہ سمجھنے کو تیار نہیں کہ ہمارے ہاں موسیقی اور شاعری کو ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت برباد کرنے کی کوشش کی جا ریی ہے۔ البتہ جو لوگ تاریخی ادراک کے ساتھ بدلتے ہوئے حالات اور قدروں کو دیکھ رہے ہوتے ہیں ، ان کے لیے پردوں کے پیچھے پنپتی” حکمت ِ عملیوں“کو جان لینا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہوتا۔ آج سے تقریباً تیس سال پہلے دبئی کے صحراوں کو مشاعروں کے تہذیبی چشموں ، اور روشنیوں سے آباد کیا گیا۔ مشاعرے کے آرگنائزرز میں پہلا بین الاقوامی نام سلیم جعفری کا گونجا جو تاریخ کا حصہ بن گیا۔ سلیم جعفری ایک نہایت حسین اور صاحب جمال انسان تھے۔ مشاعروں کی نظامت وہ خود کیا کرتے تھے ان کی گفتگو اتنی نپی تلی اور شعری اختصار سے معمور ہوا کرتی تھی کہ جیسے شعر کی طرح دریا کو کوزے میں بند کردیا گیا ہوے۔ وہ شاعر اور سامعین کے درمیان زیادہ دیر حائل رہنے کو نظامت کا عیب اور کمزوری سمجھتے تھے۔ وہ بولتے تو لگتا جگجیت نے غزل چھیڑ دی ہے۔ وہ سینئر لیکن مستند شعراءکے علاوہ نئے شعراءکی تلاش میں رہا کرتے اور انہیں سامنے لانے کا فرض پورا کرنے کی خوشی حاصل کرتے۔ ان کے ناگہاں انتقال کے بعد اگرچہ ان کے نقش قدم پر چلنے والے کئی آرگنائزرز نے مخلصانہ کوششیں جاری رکھیں لیکن بدقسمتی سے یا تو تسلسل جاری نہ رکھ سکے یا پھر معیار برقرار رکھنے سے قاصر رہے اور پھر اچانک ہی اچانک چاروں طرف کمرشل مشاعروں کی وباءپھیل گئی جس میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ نہ تو کوئی معیاری شاعر شامل کیا جائے اور نہ ہی معیاری شعر سامعین تک پہنچے بلکہ اس کی جگہ سستے ، ولگر اور چوری شدہ کلیشے اشعار اور جنسیاتی موضوعات اور سطحی جذباتی مضوعات کی بھونڈی شاعری کرنے والے شعراءکو نوجوان نسل کا ہیرو بنا کر پیش کیا جائے۔ اس قماش کے مشاعروں کو رواج دینے والے کماو دھی پتروں کی خوداعتمادی کا یہ عالم ہے کہ وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ جناب لوگ تو س±ننا ہی یہ کچرا چاہتے ہیں۔ جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے کا اصول ادب عالیہ پر فٹ کرنے والے سستی کمرشل ذہنیت کے حامل افراد نے صرف ذاتی مفاد کے لالچ میں نہ صرف اردو زبان و ادب کو نقصان پہنچایا بلکہ یہ ظالم نوجوان نسل کی معصومیت سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے ذہنوں کو ولگر شاعری سے آلودہ کرنے کی کوشش میں مسلسل مشغول نظر آتے ہیں۔
لیکن نظام قدرت اور فطرت کا بھی ایک اپنا انداز ہے جو سچائی کو کسی بھی صورت مٹنے نہیں دیتی۔ اللہ بھلا کرے عماد الملک جیسے ویڑنری اردو زبان و ادب کے عاشق کا جنہوں نے آخر کار صورتحال کے تجزیہ و تحقیق کے بعد اردو زبان و ادب کے وارث ہونے کا فرض ادا کرتے ہوئے اپلاز ادب کی بنیاد رکھی۔ گزشتہ سات ستمبر کے پہلے ہفتے میں اپلاز ادب کا تیسرا سالانہ مشاعرہ ہوا جس میں شعراءکے انتخاب سے لیکر دیگر تہذیبی عوامل کا خاص خیال رکھا گیا۔ مشاعرے کی صدارت پاکستان کے ممتاز شاعر انور شعور نے کی جبکہ شعراءمیں منظر بھوپالی ، اقبال اشعر ، راجیش ریڈی ، طارق قمر ، ندیم بھابھہ ، ظہیر مشتاق ، محشر آفریدی ، فوزیہ رباب ، پاپولر میرٹھی اور راقم الحروف شامل تھے۔ نظامت کے فرائض منصور عثمانی اور ترنم احمد نے ادا کیے۔
تمام شعراءکرام نے اس درجہ خوبصورت کلام پڑھا کہ یہ تخصیص ہی باقی نہ رہی کہ کس کو کس سے اچھا اور کس کو کس سے ہلکا کہا جائے۔ البتہ راجیش ریڈی ، ندیم بھابھہ اور اقبال اشعر کو سامعین نے کھڑے ہو ہو کر داد دی۔ پاپولر میرٹھی اپنے مزاحیہ کلام کی نفاست اور مقصدیت سے بھرے تخلیقی طنز و مزاح کے باعث سامعین کا دل موہ لینے میں کامیاب رہے۔ ظہیر مشتاق نے دبئی کی طرف سے میزبان شاعر کے طور پر سب سے پہلے اپنی نہایت عمدہ شاعری سے مشاعرے کا باوقار آغاز کیا۔ مشاعرے کو تاریخ ساز قرار دلوانے میں جہاں شاعروں کا انتخاب ایک وجہ بنا تو دوسری وجہ عمادالملک ، محمد مدثر ، مشتاق احمد ، سید مسعود نقوی اور تابش زیدی سمیت تمام آرگنائزنگ کمیٹی کی دن رات کی محنت بھی رنگ لائی۔ مشاعرے میں پاکستان پیپلز پارٹی گلف کے چیئرمین سفیر محبت میاں منیر ہانس ، خاقان صاحب ، سید اعجاز شاہین اور بے مثال نوجوان صوفی شاعر عاطف رئیس کی شرکت کی برکتیں بھی شامل تھیں۔
تاریخ ساز اپلاز ادب مشاعرے نے جہاں کمرشلزم کے مارے ہوے آرگنائزرز اور ٹک ٹاک شاعروں کے پیدا کیے ہوئے اس تاثر کو زائل کیا کہ چھچھورے اور ولگر شاعروں کو بلانا اس لیے مجبوری ہے کہ لوگ سننا ہی ان کو چاہتے ہیں وہاں اس پراپیگنڈے کو بھی ہوا میں اڑا کے دھول کردیا کہ اچھی شاعری سننے والے سامعین باقی نہیں رہ گئے۔ مشاعرہ پاکستان ایسوسی ایشن دبئی کے خوبصورت آڈیٹوریم میں منعقد کیا گیا جو رات آٹھ بجے سے لیکر رات دو بجے تک اعلیٰ ذوق سامعین کرام سے بھرا رہا۔ اس مشاعرے میں اپلاز ادب نے کتاب کی توقیر و ترقی کی ایک بے مثال روایت کا آغاز کیا اور راقم الحروف کے مقبول عام شعری مجموعے ، " شام کے بعد " کو ہندی سکرپٹ دیوناگری میں دلی سے شائع کروایا اور مشاعرے سے پہلے اس کی مکھ وکھالی کی رسم ادا کی گئی۔ کتاب کے ٹائٹل کی نقاب کشائی پاکستان ایسوسی ایشن دبئی کے درویش صفت صدر ڈاکٹر فیصل سے کروائی گئی۔ خیر اور سچائی کے کام جب خلوص ِ نیت سے کیے جائیں تو تائید ِ ایزدی ساتھ شامل ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشاعرے کے تاریخ ساز ہونے اور اس تہذیبی روایت کی ازسر نو بازیافت نے ایک دفعہ ہر زبان سے یہ ادا کروا دیا کہ لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ِ ایام تو۔