”وزیر اعظم اور مریم نواز سے دلیرانہ فیصلوں کی توقع“

پٹرول سستا ہونے کے باوجود مہنگائی کا گراف نیچے نہیں آرہا۔ اب یہاں قصور کِس کا ہے ؟؟یقینا عوام کی ایک بڑی تعداد مہنگائی کے عفریت کی نمو میں شامل ہے کوئی تاجر کے روپ میں۔ کوئی صنعتکار کی شکل میں، کوئی ٹرانسپورٹر کے کاروبار میں۔ غربت کا دائرہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ ”پلس کنسلٹنٹ “ کی رپورٹ کے مطابق” 74فیصد“ لوگ اِس دائرے کے اندر آگئے ہیں۔ اِن کے اخراجات آمدنی سے بڑھ گئے ہیں۔ بجلی۔ گیس کی ہو شربا قیمتیں ہی لے لیں، عوام کے ہوش اڑ گئے ہیں۔ خودکشیاں۔ گھریلو جھگڑے بھی بڑھتی قیمتوں کے ساتھ بے انتہا بڑھ گئے ہیں۔ متن کے مطابق پاکستانی قوم کو درپیش معاشی مسائل میں ”14فیصد“ کا اضافہ ہے جبکہ ہماری آنکھوں کے دیکھے احوال کے مطابق معاشی مسائل میں مبتلا لوگوں کی نہ صرف تعداد اندازوں سے بڑھ کر ہے بلکہ اضافہ کی رفتار کو اب ماپنا مشکل ہے۔قانون کے اندر رہ کر قدم اٹھایا جاتا تو تب بھی اعتراض اٹھتا تھا کیونکہ حالات بہت دشوار ہو چکے ہیں اور یہ بات تو ہے ہی خلاف قانون اور وہ بھی ایسے ”ادارے“ کی طرف سے جو عوام کے لیے اب کِسی بھی رو رعایت کا قائل نہیں رہا۔ ”کابینہ“ کی منظوری کے بغیر ”وزارت شاہی خزانہ“ نے ایک سال میں عملے کو ”24کروڑ روپے“ کے ”4اعزازیے“ دیدئیے۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں انکشاف۔ اعزازیے کو تنخواہ میں شامل نہ کر کے عملہ کے انکم ٹیکس سلیب کو کم رکھا گیا۔ سرکاری ادارہ ہے سرکاری رپورٹ ہے اور انکشاف بھی سرکاری ہے۔ ٹیکس کو قومی ذِمہ داری سمجھ کر ادا کرنے کی اپیلیں۔ بچت کرنے کی نوید۔ مشکل معاشی حالات کی تکرار۔ عوام تک یہ خبر کیا رنگ دکھائے گی ؟؟ نوٹس لینا تو بنتا ہے۔
وفاقی ترقیاتی بجٹ کے ”20فیصد“ تک منصوبے فراڈ ہوتے ہیں۔ فراڈ منصوبے گمنام ہوتے ہیں۔ موجودہ بجٹ میں بھی کئی ایسے منصوبے شامل ہیں جن کا کوئی مالک نہیں۔ پیچھے پورا مافیا ہے جو منظور کرواتا ہے۔ ٹینڈرز کے پیچھے بھی پورا مافیا کام کر رہا ہوتا ہے۔ زیادہ تر منصوبے اریگیشن کے ہوتے ہیں۔ دور دراز علاقوں کے ڈلوائے جاتے ہیں تاکہ رسائی نہ ہو۔ ایک دہائی پہلے اپوزیشن رہنما۔ رپورٹر۔ عام ورکر یہ بات کہتا تو یقین نہ آتا۔ اب روزانہ کی بنیاد پر اتنے تلخ حقائق۔ کڑوے سچ پڑھنے۔ سننے کو ملتے ہیں کہ زیادہ حیرت نہیں ہوئی سن کر۔ بقول ”وزیر تجارت“ ”جی پی ایس میپنگ“ لازمی قرار دی جارہی ہے۔ 
قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کی 220غیر ضروری اسامیاں ختم۔ ایک ارب روپے کی سالانہ بچت کا ہدف طے۔ اچھا قدم ہے۔ملازمتیں ختم کرنے کی حمایت تو قطعاً نہیں کی جاسکتی۔ ہونا یہ چاہیے کہ سیاسی بنیادوں پر نہ بھرتیاں کی جائیں اور نہ فیصلے۔ دونوں ہی ابھی تک قوم و ملک کے لیے ضرررساں ثابت ہوئے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو غیر ضروری نہیں کہہ سکتے تھے۔ جہاں تک بچت کا سوال ہے تو وہ ہزار طریقوں سے ممکن ہے۔ سرکاری عمارتوں۔ دفاترکو مکمل ”سولر“ پر منتقل کر دیں۔ خاطر تواضح فنڈز یکسر بند کر دیں۔ ہر وہ قدم جو ”نوازنے“ کی صف میں آتا ہے ختم کر دیں بے روز گاری پھیلانے سے تو ہزار درجہ بہتر صورتیں ممکن ہیں۔ روکھی سوکھی کھانے کی نوبت آئی نہ آنے والی ہے۔ بس کچھ اقدامات اب اٹھا ہی لیں۔ حکومتی ڈھانچہ کی تنظیم نو پر ضرور حکومت سوچ بچار کرے۔ جب وزیر اعظم ہے، اسمبلی ہے، وزراءاعلیٰ ہیں، صوبائی اسمبلیاں ہیں تو پھر صدر مملکت اور گورنرز کی ضرورت نہیں رہتی۔ انگریز کی یاد گاریں مٹانے کا سوچیں۔ وہ امیر اقوام تھیں، فاتح تھے۔ جبکہ ہم غریب ممالک ہیں۔ مفتوحہ تھے اور اب بھی مفتوحہ ہیں۔ پہلے ان کے لیے اب ان کے چھوڑے ہوئے نظام درباری اشرافیہ کے۔ یقینا ”وزیر اعظم اور مریم نواز“ اتنی اہلیت، قوت کے حامل ہیں کہ دلیرانہ فیصلے کر سکتے ہیں۔ قوت۔ حالات کی باگ ہاتھ میں ہے قوم کا درد رکھتے ہیں۔ ترقیاتی کاموں۔ ریلیف کی بھی ایک تاریخ ان کے ساتھ وابستہ ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اب ضرور ان پہلوو¿ں پر سوچا جائے گا۔ ”گورنر ہاو¿سز“ میں یونیورسٹیز۔ میڈیکل کالجز قائم کر دیں۔ غیر ملکی زرمبادلہ کی بچت مطلوب ہے تو مشہور یونیورسٹیز کے کیمپس پاکستان میں قائم کرنے کے لیے حکومت کوشش کرے۔ اِس پر پہلے بھی لکھا تھا۔ بڑی اچھی بات کہ بالاآخر حکومت کچھ وزارتوں۔ ونگز کی تحلیل کی طرف بڑھ رہی ہے مگر کیا ہی اچھا ہو کہ احتجاج۔دھرنوں سے مجبور کر فیصلے واپس لینے کی بجائے پائیدار حل کی سمت پیش قدمی ہو۔ مفت بجلی۔ مفت سفری واو¿چر۔ ریٹائر منٹ کے بعد تاحیات ڈرائیور۔ ٹیلی فون آپریٹر۔ پولیس گارڈز وغیرہ وغیرہ ختم کر دیں۔ ”پنشن“ میں معتدبہ اضافہ ہونا چاہیے تاکہ ہر” اہلکار“ دوران ملازمت ”حلال“ پر یقین رکھے اور ازاں بعد سکون کے ساتھ زندگی گزارنے کی پوزیشن میں ہو۔
لکھاریوں سے زیادہ ذہین افرادی قوت حکومت کے پاس ہمہ وقت دستیاب ہوتی ہے۔ جب عام آدمی اتنی معلومات رکھتا ہے تو کیا وہ نہیں جانتے تھے (جب آئی پی پیز سے معاہدے ہوئے تھے) کہ سورج۔ہوا کی صورت میں پاکستان کے پاس کبھی نہ ختم ہونے والے خزانے موجود ہیں جو سستی ترین بجلی پیدا کر سکتے ہیں اور تب ان پر عمل ہو جاتا تو یوں آج نہ معاشی رسوائی ہوتی اور ”مزید اور“ مانگنے کی لت بھی کب کی ختم ہو چکی ہوتی۔ دیر آید درست آید۔شنید ہے۔ کافی پروگرامز پر کام ہو رہا ہے۔ یقین ہے کہ ایک دن عوامی فلاح کے پروگرامز ضرور سامنے آئیں گے، امید کی شمع جلتی رہنی چاہیے۔ توقعات کی بنیاد اچھی سوچ۔ اچھی بات پر ہو تو نتائج بھی ضرور ثمر آور ہوتے ہیں۔”سندھ ہائیکورٹ“ کا ارکان پارلیمان کو اپنے حلقہ انتخاب کے سرکاری ہسپتالوں سے علاج کرانے کا حکم۔ جس دن اِس آرڈر پر عمل ہوگیا اسی دن سرکاری ہسپتال حقیقی معنوں میں ”شفا خانے“ بن جائیں گے۔ حال یہ ہے کہ ”29 شہروں“ کا پانی پینے کے قابل نہیں وفاقی وزراءکے بقول۔
اجازت عدالتی حکم کے تابع تھی یا ضلعی انتظامیہ کے۔ اجازت تو اجازت ہے پھر خواہ مخواہ رکاوٹیں لگانے، ہراساں کرنے کی ضررت نہیں تھی۔ ایسے کام لازمی طور پر آنے والے سالوں میں ہر کِسی کو خود بھی بھگتنا پڑتے ہیں۔ حکومت کا جواب صرف کارکردگی ہونا چاہیے۔ طویل پریس کانفرنس نہیں۔ جب حکومتیں کام کر رہی ہیں تو ٹھیک ہے۔ عوام بہترین فیصلہ ساز ہیں۔ عوام نے جب بھی فیصلہ دیا۔ تاریخ میں یاد رکھا گیا۔ زبان کا غیر شائستہ۔ ناروا استعمال پہلے بھی بد تہذیبی تھی اب بھی بری روایت ہے۔ جب اجازت مل گئی تھی تو اپنی پوری توانائیوں کو کامیابی میں بدلنے کے لیے استعمال کرتے۔ دھمکیوں کی کیا ضرورت تھی؟ ہمیشہ لکھا کہ ڈائیلاگ اور نرم روئی سے سب مسائل کا خاتمہ ممکن ہے۔ میٹھی زبان سب ناممکن کا امرت دھارا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ”میثاق اخلاق“ کے عنوان سے کالم لکھا تھا اس میں تمام تر مسائل کی نشاندہی اور حل کی تدابیر دکھائی گئی تھیں رہنماءکرام اس پر ضرور عمل کریں۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...