بصیرت، وقار، اور جرات کی روشن مثال

    گزشتہ ہفتے، ہم نوائے وقت کے مجید نظامی ہال میں ایک عظیم الشان موقع کو منانے کے لیے اکٹھے ہوئے، جو کہ سعید آسی کی 70ویں سالگرہ کی تقریب کا تھا۔ ایک مثالی صحافی اور رول ماڈل کے طور پر، سعید آسی نے اپنے دور کو دیانت داری اور جرات کے ساتھ رقم کیا ہے اور بے شمار نوآموز صحافیوں کو متاثر کیا ہے۔ یہ تقریب ان کی ادب و صحافت میں بے پایاں خدمات اور دیرپا اثرات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے منعقد کی گئی تھی۔
 سعید آسی 24 اگست 1954ءکو پاکپتن شریف میں پیدا ہوئے، آپ ایک نامور صحافی، کالم نگار، شاعر، مصنف اور سماجی کارکن ہیں۔ آپ ایک ایسے خاندان میں پروان چڑھے جس کی ادبی اور علمی روایات بہت مضبوط تھیں۔ ان کے والد، چودھری محمد اکرم، تحریکِ پاکستان کے ایک گولڈ میڈلسٹ کارکن تھے اور انہوں نے سعید آسی کی اردو اور فارسی ادب کے لیے محبت کو پروان چڑھایا، جبکہ ان کے دادا، مولوی عبد الکریم، ضلع ساہیوال میں ایک سکہ بند دینی عالم تھے۔ یہ قوی علمی پس منظر انہیں صحافت کی طرف فطری طور پر لے آیا‘ جس نے انہیں سچائی کی تلاش اور محروم طبقات کی آواز بلند کرنے کا موقع فراہم کیا۔
انہوں نے اپنی تعلیم کا آغاز گورنمنٹ پرائمری سکول غلہ منڈی پاکپتن سے کیا اور 1969ءمیں گورنمنٹ ہائی سکول پاکپتن سے میٹرک مکمل کیا، جہاں انہیں ان کی ذہانت اور نظم و ضبط کے لیے سراہا گیا۔ 1971ءمیں گورنمنٹ فریدیہ کالج پاکپتن سے انٹرمیڈیٹ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے ساہیوال میں مزید تعلیم حاصل کی اور 1974ءمیں گورنمنٹ کالج ساہیوال سے گریجویشن کیا۔ ان کی لکھنے کی صلاحیت ان کے انٹرمیڈیٹ کے دور میں واضح ہو گئی جب انہوں نے اردو کے امتحان کو شاعری میں تبدیل کر دیا اور اعلیٰ نمبر حاصل کیے۔ اس کامیابی نے انہیں ادب پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے متحرک کیا، جس نے انہیں اردو اور پنجابی ادب میں نمایاں مقام دیا اور وہ کالج کی ”پنجابی ادبی سنگت“ کے نائب صدر کے عہدے پر فائز ہو گئے۔
سعید آسی نے ابتدائی طور پر معاشیات کا ماہر بننے کا ارادہ کیا تھا، لیکن اپنے والد کی خواہش پر انہوں نے پنجاب یونیورسٹی لاءکالج سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے 1977ءمیں ڈگری مکمل کی لیکن 1980ءمیں صرف مختصر وقت کے لیے پاکپتن میں وکالت کی، اور پھر صحافت پر توجہ مرکوز کرنے کا انتخاب کیا۔ دوران تعلیم انہوں نے اپنے میگزین اسٹوڈنٹ کا اجراءکیا، جو مالی مشکلات کی وجہ سے چار شماروں کے بعد ختم ہو گیا۔ بعد ازاں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی لاءکالج کے میگزین ”المیزان“ کے ایڈیٹر کے طور پر خدمات انجام دیں اور ”ڈیلی وفاق“ میں پارٹ ٹائم سب ایڈیٹر کے طور پر کام کیا۔
صحافت کے ابتدائی دور میں سعید آسی کو ایسے ماحول میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جو اکثر ا±بھرتی ہوئی آوازوں کے لیے حوصلہ شکن ہوتا تھا۔ تاہم، ان کا عزم اور استقامت انہیں آگے لے گیا۔ انہوں نے اپنے پیشہ ورانہ سفر کا آغاز وفاق سے کیا۔ وہاں سے وہ روزنامہ آزاد کے ساتھ بطور ہائیکورٹ رپورٹر وابستہ ہوئے اور ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قتل کیس کی کوریج کی۔ وہ کچھ عرصہ روزنامہ صداقت کے ساتھ بھی وابستہ رہے اور پھر وفاق میں بطور نیوز ایڈیٹر واپس آگئے۔ اسی دوران روزنامہ جنگ کا لاہور سے اجرا ہوا تو وہ اس کی نیوز ڈیسک کی پہلی ٹیم کا حصہ بن گئے۔ وہاں چند ہفتے ہی کام کیا اور جب انہیں نوائے وقت جوائن کرنت کے لئے کال لیٹر ملا تو وہ جنگ سے استعفیٰ دے کر نوائے وقت میں آگئے۔ انہیں نوائے وقت سے وابستہ ہوئے تقریباً 44 برس ہو گئے ہیں اور پیشہ صحافت میں یہی ان کی آخری منزل ہے۔ نوائے وقت میں انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو نکھارا اور اصولی، نظریاتی صحافت کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا جس کے لئے محترم مجید نظامی ان کا آئیڈیل تھے۔ ان کے کیریئر کا ایک نمایاں پہلو ان کی سچائی، اصولوں اور اخلاقیات پر مبنی غیر متزلزل عزم رہا ہے۔
پیشہ ورانہ کامیابیوں کے علاوہ، سعید آسی نے بے شمار نوجوان رپورٹرز اور کالم نگاروں، بشمول میری رہنمائی کی ہے۔ انہوں نے ہمیشہ نئے ٹیلنٹ کی حوصلہ افزائی کی ہے اور اپنے کیریئر کا ایک بڑا حصہ نئی نسل کے صحافیوں کی تربیت اور رہنمائی کے لیے وقف کیا ہے۔ انکی رہنمائی نے نہ صرف تکنیکی مہارتیں سکھائی ہیں بلکہ دیانتداری، ہمدردی، اور استقامت کی قدریں بھی پیدا کی ہیں۔ انہوں نے بے شمار افراد کو صحافت کے میدان میں جوش و خروش کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے تحریک دی ہے۔
اس موقع پر سینئر صحافی مجیب الرحمان شامی نے ان کی زندگی کی جدوجہد اور اصولی صحافت کی لگن کو اجاگر کیا، جو اکثر دوسروں کی ضروریات کو ترجیح دیتے ہیں۔ پیشہ ورانہ دباﺅ کے باوجود، انہوں نے توازن برقرار رکھا، اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کیا۔ ان کی بصیرت اور وقار ان کے کیریئر سے کہیں آگے ہیں۔ اپنی مہربانی اور عاجزی کے لیے مشہور، انہوں نے بے شمار افراد پر مثبت اثر ڈالا ہے، خواہ وہ صحافت میں ہوں یا اس سے باہر۔ ان کی جرات ان کی شاعری، کالموں، اداریوں اور روزمرہ کے کاموں میں ظاہر ہوتی ہے، وہ ہمیشہ حق سچ کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں اور دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔
ان کی 70 ویں سالگرہ کے موقع پر انہیں نوائے وقت کے چیف آپریٹنگ آفیسر لیفٹیننٹ کرنل (ر) سید احمد ندیم قادری، مجیب الرحمان شامی، چیف نیوز ایڈیٹر دلاور چودھری، مارکیٹنگ ہیڈ بلال محمود بٹ، سابق ججز لاہور ہائیکورٹ جسٹس رانا محمد ارشد خان اور جسٹس حسنات احمد خان، جی سی ساہیوال کے پرنسپل ڈاکٹر ممتاز احمد وٹو، جی سی ساہیوال الومنائی ایسوسی ایشن کے بانی صدر اور کالم نگار عاطف محمود، ہائی کورٹ کے معروف وکلاءمنیر احمد خان اور ظہیر الحسن ظہور، سابق سیکرٹری اطلاعات پنجاب اور مشہور شاعر شعیب بن عزیز، سابق ڈی جی پلاک ڈاکٹر صغرا صدف، ڈاکٹر جاوید اقبال ندیم، پروفیسر ڈاکٹر نسیم بلوچ، ادبی تنظیم سائبان کے سربراہ حسین مجروح، سابق ناظم میاں بابر فرید وٹو، سابق پی ٹی وی کنٹرولر نیوز ریاض مسعود، کالم نگار بیدار سرمدی، فضل حسین اعوان، فرخ مرغوب، طارق محمود، استاد عنایت عابد، پروفیسر عاطف بٹ، ڈاکٹر سلیم اختر، عثمان مسعود، خاور عباس سندھو، سابق طالب علم رہنما امتیاز حسین اعوان، میاں معین الحق وٹو اور دیگر دوستوں اور اہل خانہ کی جانب سے خراج تحسین پیش کیا گیا۔ ان کے اہل خانہ، خاص طور پر شعیب سعید اور شاذیہ سعید مہمانوں کا استقبال کرنے میں پیش پیش تھےاور مہمانوں کو گھر جیسا محسوس کرانے میں بہت سی ذمہ داریاں سنبھالیں۔
تمام شرکاءنے سعید آسی کی اہم خدمات کو تسلیم کیا، جنہوں نے اپنے قلم کےزور سے دنیا کو سمجھنے میں مدد دی، عوامی رائے کو متاثر کیا، اور بے شمار لوگوں کو سچائی اور انصاف کی تلاش میں تحریک دی۔ ہم مستقبل کے صحافیوں کی رہنمائی کے لیے ان کی قائم کردہ اقدار کو اپنانے کا عزم رکھتے ہیں۔ ان کی میراث صحافت کی طاقت اور ایک ایسی زندگی کے اثرات کا ثبوت ہے جو سچائی کے لیے وقف ہو۔
70 سال کی عمر میں بھی، سعید آسی کی بےباک اور کھری صحافت کے لئے لگن میں کوئی کمی نہیں ا?ئی۔ ان کی موجودگی اس بات کی یاد دہانی ہے کہ صحافت محض ایک پیشہ نہیں بلکہ ایک مقدس فریضہ بھی ہے، جو جرات، دیانتداری اور سچائی کی بے پناہ تلاش کا متقاضی ہے، جس کا انہوں نے بہترین معیار قائم کیا ہے اور ایک نسل کو ان کے نقش قدم پر چلنے کے لیے متاثر کیا ہے۔ ہم نے ان کی خدمات کا اعتراف کیا اور ان کی بھرپور زندگی کا جشن منایا، یہ جانتے ہوئے کہ ان کی میراث آنے والے سالوں تک ہماری رہنمائی کرتی رہے گی۔ 
میں سعید آسی کی شخصیت کے مختلف پہلووں پر ایک مکمل کتاب تحریر کر سکتا ہوں۔ فی الوقت یہی کہوں گا کہ ان کے بارے میں مزید کھوج لگانے کے لیے آپ ان کی ویب سائیٹ www.saeedaasi.comکو ملاحظہ فرمائیں۔

عاطف محمود  ۔۔ مکتوب آئرلینڈ

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...