گزشتہ برس 7اکتوبر سے مشرق وسطیٰ میں فلسطینیوں پر برپا کی گئی تاریخ کی بدترین نسل کشی کا سلسلہ ہے جو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ شہادتوں کی تعداد 50ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ ہزاروں فلسطینی ایسے ہیں جن کے لاشے تباہ کی گئی کثیر المنزلہ عمارتوں کے ملبے تلے دبی ہوئی ہیں۔ شہید ہوئے فلسطینیوں میں اکثریت معصوم بچوں اور خواتین کی ہے۔ جبکہ زخمیوں کی تعداد بھی لاکھ سے زیادہ بتائی جارہی ہے۔ 8ستمبر 2024ءکو عالمی سطح پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں عکس بند کیے گئے منظر کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا تمام تر تعلیم وترقی اور بلند وبانگ انسانی حقوق کے دعوو¿ں کے باوجود واپس اس تاریک دور کی طرف لوٹ رہی ہے جس میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔غاروں کے اس دور میں ایک انسان کیلئے دوسرے انسان کی حیثیت کیڑے مکوڑوں کی مانند تھی اور انسان جانوروں کی طرح زندگی گزارا کرتے تھے۔ ورنہ کس طرح ممکن ہے کہ اسرائیلی فوج ایک ایسے شہید فلسطینی کا جسدخاکی غزہ میں فلسطینیوں کے حوالے کر ے جس کے جسم میں بارود چھپایا گیا ہو؟انتہائی دکھ اور تکلیف کی بات یہ ہے کہ جب فلسطینیوں کا ہجوم شہید فلسطینی کی میت کو اسٹیچرپر احترام سے لے کر جارہا تھا۔ سینکڑوں فلسطینی کلمہ شہادت کا ورد کرتے ساتھ چل رہے تھے کہ اچانک لاش کے اندر نصب بم دھماکے سے پھٹ گیا جس کی زد میں آکر مزید بہت سے فلسطینی شہید ہوگئے۔اگر فلسطینیوں کی سر زمین پر پر ناجائز قابض یہودیوں کی فسطائیت کا یہ عالم ہواور دنیا میں کوئی بھی ملک اسرائیلی فوج کو فلسطینیوں کی نسل کشی سے روکنے میں ناکام دکھائی دے تو ایسے میں تل ابیب سے شائع ہونے والا اسرائیلی اخبار پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کو پاکستان اسرائیل تعلقات استوار کرنے کیلئے موزوں شخصیت قرار دینے کے حوالے سے مضمون شائع کرے تو پاکستان میں عوام کا ماتھا ٹھنکنا فطری سی بات ہے۔
اسرائیلی اخبار دی ٹائمز آف اسرائیل میں شائع ہونے والے مضمون میں تسلیم کیا گیا ہے کہ اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے کا تصور پاکستانی عوام کی نظروں میں نظریہ پاکستان سے متصادم ہے اور کوئی بھی پاکستانی لیڈر پاکستانی عوام میں اسرائیل کے خلاف پائی جانے والی نفرت کے پیش نظر اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس کے باوجود اگر اسرائیلی اخبار میں شائع ہونے والے مضمون کی خاتون قلمکار نے عمران خان کی شخصیت کا تجزیہ کرتے ہوئے اسے اسرائیل کیلئے اہم قراردیا ہے تو یقینا آذر بائیجان سے تعلق رکھنے والی قلمکار عیفور بشیر دوانے کے پاس معلومات اور اپنے تجزیے کیلئے ٹھوس دلائل موجود ہونگے۔ اپنے گزشتہ دور اقتدار میں عمران خان بہت سے مواقع پر اپنے موقف کے برخلاف نہ صرف متضاد فیصلے کرتے رہے بلکہ ان کے یوٹرن لینے کے طریقہ کار پر تبصرے بھی ہوئے۔ اسرائیلی اخبار میں شائع شدہ مضمون میں عمران خان کو فلسطینی کاز کیلئے پاکستان کی اسرائیل کے خلاف روایتی پالیسی کا حمایتی لکھا گیا ہے کہ وہ فلسطینیوں کو ان کے حقوق ملنے اور مسئلہ فلسطین کے پائیدار حل تک اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کو مسترد کرتے رہے جبکہ عوام کے سامنے بیانات کے برعکس درپردہ سفارکاری کی سطح پر عمران خان مختلف شخصیت کے طو ر پر سامنے آئے اورپاکستان کے مفادات کے لیے عملیت پسندی کو مدنظررکھتے ہوئے پاکستان کی مخالف سمجھی جانے والی قوتوں کے ساتھ بھی مل کر ساتھ چلنے کیلئے راستے کھولنے کی کوشش کرتے رہے۔
اسرائیلی اخبار میں شائع شدہ مضمون کے مطابق خاتون قلمکار کو برطانیہ سے ایسی معلومات حاصل ہوئیں جس کے مطابق عمران خان نے اپنے سابق سسرالی برطانوی گولڈ اسمتھ خاندان کے ذریعے اسرائیلی حکام تک پیغام پہنچائے ان پیغامات میں اس طرح کے اشارے موجود تھے جن میں پاکستان کے اندر مذہبی گفتگو کو اعتدال پر لانے اور پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے اشارے کیے گئے تھے۔ اس حقیقت سے سب واقف ہیں کہ برطانیہ میں یہودی اور اسرائیل نواز حلقوں میں گولڈ اسمتھ خاندان کانام سرفہرست ہے۔ عمران خان بھی ان تعلقات کی گہرائی سے آگاہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خاتون قلمکار نے عمران خان کی شخصیت کے ایک مختلف پہلو کے طور پر دیکھتے ہوئے لندن میں میئر کے انتخابی عمل کا حوالہ دیا۔ جس میں مسلمانوں اور برطانوی مقامی انگریز ووٹروں میں یکساں طور پر مقبول صادق خان کی حمایت کرنے کے برعکس عمران خان نے اپنے سابق برادر نسبتی زیک گولڈ اسمتھ کے ساتھ کھڑے ہونے کو ترجیح دی۔ لیکن اس حقیقت کو بھی مدنظر رکھنا ضرور ی ہے کہ مغربی دنیامیں مقبولیت اور قبولیت کے باوجود عمران خان کیلئے پاکستانی عوام کو اسرائیل کی طرف راغب کرنا کسی صورت آسان نہیں ہوگا۔ خاص طور پر فلسطینیوں کی نسل کشی کے حالیہ اندو ہناک دور میں پاکستان کے عوام اسرائیل سے تعلقات جوڑنا تو دور کی بات ہے اس حوالے سے بات کرنا بھی گوارا نہیں کریں گے۔ عمران خان، برطانوی گولڈ اسمتھ خاندان اور یہودی لابی کے زیر اثر مغربی ممالک کی یہ کوشش ضرو ر ہوسکتی ہے کہ کسی طرح عمران خان کو دوبارہ اقتدار میں لایاجائے۔ اگر اس طرح کی کوششوں کا مطلب پاکستان اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کرانا ہے تو امریکی اور برطانوی سیاسی اشرافیہ ہو یا وہاں کی اسٹیبلشمنٹ، سب اس حقیقت کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں کہ پاکستان میں عوام الناس اسرائیل کو کسی صورت تسلیم نہیں کریں گے نہ ہی اپنے کسی حکمران کو کرنے دیں گے۔