مسائل و وسائل کی ضرب وتقسیم

Sep 13, 2024

رابعہ رحمن

کائنات بنانے سے پہلے خالق نے توازن کومدنظر رکھا اور اس کے حوالے سے دنیا کو ہر رنگ عطاکیا، کہیں دشت بنائے کہیں جنگل وصحرا کہیں دریا کہیں پہاڑ اور کہیں سرسبز وادیاں۔اب کائنات کی ہر چیز ہماری نظرکو توازن کا تاثردیتی ہے۔ جہاں کہیں توازن بگڑنے لگتاہے تو کائنات میں بگاڑ پیدا ہوجاتاہے۔ جب بارش نہیں ہوتی تو اناج کو نقصان پہنچتاہے اور جب زیادہ ہوتی ہے تو سیلاب کا سبب بنتی ہے۔بالکل اسی طرح سے اس کائنات میں دو ایسے عوامل کارفرما ہیں جوکہ گھر، معاشرے اور ملک کے توازن کو بگاڑ سکنے کی قوت اور برقرار رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ وہ ہیں وسائل اور مسائل۔جووسائل قدرتی ہوتے ہیں ان کو منصوبہ بندی کرکے بڑھایاجاسکتاہے مگر وہ وسائل جو قدرتی نہ ہوں ان کے بغیر گزارہ نہ ہوسکتا ہو تو انسان کی تعلیم، فہم وفراست اور روزگار ان کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ جس طرح سے کہ ہمارا حاصل کیا ہوا علم ہمیں روٹی کپڑا اور مکان بنانے کےلئے وسائل مہیا کرتاہے اور ان وسائل کو بروئے لاکر ہم نوکری کرنے بزنس کرنے یا مزدوری کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ غربت کا ہے جوکہ پیداوار ہے بے روزگاری کی۔ اور بے روزگاری کی وجہ سے ناخواندگی کی شرح میں اضافہ مسائل میں اضافہ کا سبب ہے۔غربت نسل درنسل کیوں چلتی ہے یہ کوئی بیماری تونہیں کہ ورثے میں ملے۔ اس کے پیچھے پھر تمام مسائل انسان کا ورثہ بنتے چلے جاتے ہیں۔ پچھلے عشرے میں2009ء سے2010ءتک تعلیم کی بنیادوں پہ بہت کام ہوا۔2010ءکی چھوٹی سی رپورٹ کیمطابق ہماری کل آبادی17کروڑ 45 لاکھ99ہزارہے۔ تعلیم یافتہ طبقہ 43.92، مرد 61.7، عورتیں35 فیصد ہیں۔2024ءکی بات کرتے ہیں۔ اگرہم اسی تواتر سے بڑھتی ہوئی آبادی کوضرب وتقسیم پرلے آئیں تومعاملات کتنے ناگزیر ہوچکے ہیں ہم سب کو ان کا اندازہ ہے۔ یہ شرح خواندگی تو بہت کم ہے۔ مسائل حل کرنے کی پہلی سیڑھی ہی کمزورہے توپھر پہاڑ جیسے مسائل کیسے کم ہونگے۔ غربت نے دنیا کے ایک ارب اور تیس کروڑ سے بھی زیادہ انسانوں کو اپنے آہنی شکنجوں میں جکڑ رکھاہے۔ جس کے باعث انسانوں کا معیار صحت اورمعیار زندگی بہتر بنانا ناممکن ہے۔ آبادی کے حوالے سے صرف ہم اندازہ لگانے کےلئے جائزہ لیتے ہیں کہ آبادی کے بڑھنے کی شرح کیا ہے۔ صوبہ بلوچستان جس کی آبادی تمام صوبوں سے کم ہے۔ 1947ء سے 2000ءتک اس کی آبادی کے بڑھنے کی شرح اتنی تیز تھی کہ اگر ہم اس طرح ہرصوبے کا جائزہ لینے لگیں تو شاید ہم سوچنے پہ مجبورہوجائیں کہ ہمارے وسائل کی کمی اور مسائل کی بڑھتی ہوئی صورتحال کی ذمہ دار صرف آبادی ہے۔
آبادی کی بنا پر قومی اور عالمی سطح پر وسائل پہ بہت بوجھ بڑھ رہاہے۔ اس رجحان کی بنا پر انسانیت کا ایک حصہ لامتناہی غربت اور اس سے وابستہ جملہ مسائل کا اسیربن گیاہے۔ اسکے علاوہ ہمارا حیوانیاتی ماحول بھی متاثر ہواہے اور OZONE اوزون فضائی سطح کو نقصان اور سطح زمین کا گرم ہوجانا ایسے عوامل ہیں جن سے کرہ ارض کی بقاءکو خطرہ لاحق ہے۔ہرطرف مسائل کا ایک جم غفیر، سماجی خدمات پہ دباﺅ‘ بنیادی ضروریات پہ کھچاﺅ۔ جذباتی رشتوں میں کشمکش، انسانیت سوزی، بچوں سے بیگار، یہ سب کی سب وسائل اور مسائل کی وہ جنگ ہے جو اس کرہ ارض پہ ختم ہوتی نظرنہیں آتی۔
سوچناہے کہ ہمیں اپنے بچوں کےلئے کیسی دنیا تیارکرنی ہے، کس طرح وسائل کی کمی اور مسائل کی زیادتی کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ اگریہ فریضہ ہم ادا کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو آئندہ نسلیں بحران کا شکارہوجائیں گی۔
تعلیم، فکرودانش کا سبب ہے اور جب صحیح فکر ودانش کسی قوم کو حاصل ہوجاتی ہے تو وہ راستوں کے تعین اورمنزل کے چناﺅ میں کبھی کوتاہی نہیں کرتی۔علم تو ایسی ذہنی اور روحانی قوت ہے جیسے کہ سیسہ پلائی دیوار۔ جس قوم نے اس دیوار کو اپنے گرد تعمیرکرلیا وہ قوم ناقابل تسخیرہے۔
جب علم کا شعور جاگا تو بے شک سکول کالج اوریونیورسٹیاں بہت کم تھیں۔ مگر تعلیمی معیار اچھا تھا۔ تختیاں لکھنے سے استاد کے ادب آداب تک۔ وہ طالبعلم ذہین ہواکرتے تھے ان کےلئے ان درسگاہوں میں جھاڑوپھیرنا باعث افتحار ہواکرتاتھا۔
آج علم کے بیوپار میں ہم زیادہ تر سوداگر بنارہے ہیں مگر اچھی تعلیم ہر انسان کی پہنچ میں نہیں ہے۔ ایم اے پاس کئی افراد غبارے بیچتے دیکھے گئے ہیں۔ فٹ پاتھ پہ سوئے ہوئے ہزاروں افراد میں سے بیسیوں ایسے ہونگے جو حالات سے،غربت سے بے روزگاری سے مجبورہوکے گھر والوں سے نکل آئے ہیں۔ کتنا المناک ہوتاہے وہ منظر جب معصوم سا بچہ کار کا شیشہ صاف کرتے ہوئے حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتاہے اور اگرکسی کو ترس آجائے تو دس کا نوٹ اس کے ہاتھ پہ رکھ دیتاہے۔
کیا اس کے ہاتھ پہ دس کا نوٹ ہوناچاہیے۔
یااس میں کتابیں اور قلم اور ان مایوس آنکھوں میں مستقبل کی روشن دنیا؟
پانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے۔20کروڑ مربع میل پر پھیلی ہماری زمین کا تقریباً ستر فیصد حصہ پانی اور تیس فی صد خشکی پر مشتمل ہے پہلے اس خشکی کے حصے پہ ایک کروڑ نفوس آباد تھے اور آج۔ الامان۔ الامان۔اب دیکھئے ہمارے پاس وسائل کی کیا صورتحال ہے اور مسائل کتنے ہیں۔ ہسپتالوں میں ہزاروں جانیں ادویات نہ ملنے پر موذی مرض میں مبتلا یاموت کی شکارہوجاتی ہیں۔
بے شک حکومت پاکستان کے مختلف ادارے وسائل بڑھانے اور مسائل کے تدارک کےلئے تگ ودوکررہے ہیں اورمعاشرے کے نظام کو بہترین کرنے کےلئے سیمینار اورکانفرنسیں ہو رہی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ عملی طور پر بھی بہت سارے ایسے کام نوجوان نسل کے حوالے سے ،طبی معاملات کے حوالے سے اورتعلیم وبے روزگاری کے حوالے سے شدومدسے جاری ہیں۔

مزیدخبریں