چارٹر آف پارلیمنٹ کیلئے مثبت پیشرفت

پارلیمنٹ کی کارروائی چلانے کیلئے کمیٹی بنانے کی قرارداد منظور کر لی گئی۔ اجلاس کے دوران سپیکر قومی اسمبلی نے میثاق پارلیمنٹ کی تجویز دی۔ ایاز صادق نے کہا کہ ہم بیٹھ کر چارٹر آف پارلیمنٹ کیوں سائن نہیں کرسکتے؟ بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے چارٹر آف پارلیمنٹ کی قرارداد قومی اسمبلی میں پیش کی گئی۔ وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے اس کی حمایت کی۔علاوہ ازیں سپیکر ایاز صادق نے تحریک انصاف کے گرفتار ارکان قومی اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر جاری کر دیے۔ شیر افضل مروت، عامر ڈوگر، احمد چٹھہ، زین قریشی، زبیر خان، وقاص اکرم، اویس حیدر، احد علی شاہ، نسیم علی شاہ اور یوسف خان کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے گئے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے بھی تصدیق کی اور کہا کہ سپیکر قومی اسمبلی نے پی ٹی ش آئی کے گرفتار ایم این ایز کے پروڈکشن آرڈر جاری کر دیے ہیں اور تمام ارکان کل ایوان میں آئیں گے۔
جس رات پارلیمنٹ ہاوس سے پی ٹی آئی کے منتخب ارکان کو حراست میں لیا گیا، اس کے اگلے روز قومی اسمبلی اور سینٹ میں یہ معاملہ بڑی شد و مد کے ساتھ اٹھایا گیا تھا۔اس دوران دونوں ایوانوں میں ماحول کافی گرم اور کشیدہ رہا۔اپوزیشن اور حکومتی ارکان ایک دوسرے کے بارے میں سخت رویوں کا اظہار کرتے رہے۔اس کے اگلے روز بدھ کو اجلاس پھر ہوا۔اس دن بھی پارلیمنٹ ہاوس سے ہونے والی گرفتاریاں موضوع بحث رہیں۔کم و بیش انہی ارکان نے اس روز بھی اسی موضوع پر بات کی مگر گزشتہ روز کی نسبت ماحول بہت بہتر تھا۔اس روز کوئی شور شرابہ نہیں ہوا۔فریقین نے ایک دوسرے کی بات غور اور توجہ سے سنی۔سپیکر کی طرف سے اس خوشگوار ماحول اور صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پارلیمان کی کارروائی چلانے کے لیے کمیٹی بنانے کی تجویز دی گئی۔جو متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔18 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی پارلیمانی بزنس کے مسائل کو حل کرنے کے لیے متفقہ لائحہ عمل بنائے گی۔ کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن کے اراکین اسمبلی کو برابر تعداد میں شامل کیا گیا ہے۔ 18 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں اسحاق ڈار، خواجہ آصف خورشید شاہ، خالد مقبول صدیقی ، امین الحق، چوہدری سالک، عبدالعلیم خان، اعجاز الحق، خالد مگسی، صاحبزادہ حامد رضا، بیرسٹر گوہر، شاہدہ بیگم، اختر مینگل، حمید حسین، محمود خان اچکزئی کمیٹی کا حصہ ہیں۔ وزیر پارلیمانی امور بھی کمیٹی کا حصہ ہوں گے۔ایسی کمیٹی کا قیام وقت کی اہم ترین ضرورت تھی جس کا ادراک بہرحال فریقین کو ہو گیا۔
 سپیکر قومی اسمبلی نے 9 ستمبر کے واقعہ کی تحقیقات کیلئے 4 رکنی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بھی بنا دی ہے جس کی سربراہی ایڈیشنل سیکرٹری کریں گے اور کمیٹی میں جوائنٹ سیکرٹری ارشد علی، رضوان اللہ اور قائم مقام سارجنٹ ایٹ آرمز راجہ فرحت شامل ہیں۔سپیکر ایاز صادق نے اراکین کی پارلیمنٹ ہاوس سے گرفتاری کے معاملے کی تحقیقات کے لیے وفاقی وزارت داخلہ کو خط لکھ دیا ہے۔ وزارت داخلہ سے مذکورہ تحقیقات کی رپورٹ 7روز میں طلب کی گئی ہے۔
پارلیمنٹ ہاوس کا تقدس برقرار رکھنے کے لیے سپیکر کی طرف سے کیے گئے اقدامات نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ایسا کچھ دور آمریت میں ہوسکتا ہے جمہوری ادوار میں اس کے قطعی گنجائش نہیں ہے۔پارلیمان کے اندر موجود حکومتی اور اپوزیشن پارٹیوں کی طرف سے کم از کم نکات پر اتفاق رائے ہو جانا بھی جمہوریت کے مضبوطی کے لیے بہتر پیش رفت ہے۔
مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی ایک عرصہ ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار رہیں۔ 1988ءسے 1999ءتک دونوں دو دو مرتبہ اقتدار میں آئیں اور دونوں نے دوسری پارٹی کو مدت مکمل نہیں کرنے دی۔ 1988ءسے چار ٹینیور 2008ءمیں مکمل ہونے تھے مگر عدم برداشت کے باعث یہ صرف 11 سال پر ہی محیط ہو گئے۔ مشرف دور میں ان کو اختلافات کے ذاتیات اور دشمنی تک جانے کے نقصانات کا ادراک ہوا تو چارٹر آف ڈیموکریسی کی طرف آگئیں۔
 14 مئی، 2006ءکو لندن میں ہونے والا میثاق جمہوریت آٹھ صفحات پر مشتمل ہے جس میں مشرف حکومت کی طرف سے متعارف کرائی گئی آئینی ترامیم، جمہوریت میں فوج کی حیثیت، نیشنل سکیورٹی کونسل، احتساب اور عام انتخابات کے بارے میں دونوں جماعتوں کے ساتھ ساتھ اے آرڈی کے مشترکہ نکتہ نظر کو بیان کیا گیا۔ معاہدے پر میاں محمد نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی طرف سے دستخط کیے گئے۔اس معاہدے کو اے آر ڈی کی جماعتوں کی حمایت بھی حاصل تھی۔چارٹر آف ڈیموکریسی میں 1973ءکے آئین کو اس شکل میں بحال کرنے کا مطالبہ کیا جس شکل میں اسے مشرف حکومت نے گیارہ اکتوبر 1999ءکو معطل کیا تھا۔چارٹر آف ڈیموکریسی میں یہ بھی سفارش کی گئی تھی کہ سیاسی بنیادوں پر کام کرنے والے نیب کی جگہ ایک آزادانہ احتساب کمیشن بنایا جائے جس کی سربراہ کو وزیر اعظم قائدِ حزب اختلاف کے مشورے سے مقرر کرے۔
چارٹر آف ڈیموکریسی کے بعد سے اب تک ہر حکومت نے سوائے تحریک انصاف کی حکومت کے،اپنی مدت پوری کی۔ عمران خان حکومت بھی ایسے ہی سیاسی اختلافات جو ذاتیات اور دشمنی پر چلے گئے تھے کے باعث مدت پوری نہ کر سکی البتہ یہ امر خوش آئند ہے کہ قومی اسمبلی نے اپنی مدت ضرور پوری کر لی۔
آج واقعی چارٹر آف پارلیمنٹ کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف لیڈر آف اپوزیشن کی حیثیت سے بھی چارٹر آف اکانومی کی بات کرتے رہے ہیں۔ وہ آج بھی معیشت کے یک نکاتی ایجنڈے پر تمام پارٹیوں کے یکجا ہونے پر زور دیتے ہیں۔
چارٹر آف پارلیمنٹ کی تجویز پر پیشرفت ہوتی ہے تو ملک میں معاشی اور سیاسی استحکام آنے کی قوی امید کی جا سکتی ہے جس کی آج اشد ضرورت ہے۔ آج پاکستان ایک بار پھر دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ملک میں مہنگائی بے روزگاری کا عفریت دندنا رہا ہے۔ ان خرافات مشکلات اور مسائل سے نجات سیاسی استحکام ہی سے حاصل کی جا سکتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...