زلمے خلیل زاد کا پاکستان بارے ٹویٹ

جمعرات کی صبح آنکھ کھلی تو اتفاقاََ میرے موبائل فون پر ٹویٹر اکاؤنٹ کام کررہا تھا۔ نیند پوری نہ ہونے کے باوجود ٹویٹر کے فعال ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تازہ ترین جاننے میں مصروف ہوگیا۔ سکرین پر انگوٹھا چلاتے ہوئے مگر اس پیغام پر رک گیا جو ایک مشہور افغان نڑاد امریکی زلمے خلیل زاد نے لکھا تھا۔
زلمے جسے پیار سے اس کے دوست ’’زیل‘‘ پکارتے ہیں میری ذاتی رائے میں ایک چلا ہوا کارتوس ہے۔ امریکہ کی نام نہاد ’’ڈیپ اسٹیٹ‘‘ کا ایک زمانے میں لیکن اہم کردار رہا ہے۔ نائن الیون کے بعد بش انتظامیہ کی افغانستان وعراق پالیسیوں کو تشکیل دینے اور انہیں عملی صورت دینے میں وہ کلیدی عہدوں پر فائز رہا۔ بش حکومت ان دونوں جنگوں کی وجہ سے افغانستان وعراق کے عوام کے ’’دل اور اذہان‘‘ اگرچہ اپنی خواہش کے مطابق جیتنے میں قطعاََ ناکام رہی۔ اسی باعث اقتدار سنبھالتے ہی باراک اوبامہ نے عراق سے امریکی افواج کو نکالنے کا فیصلہ کیا۔ افغانستان کے ساتھ بھی وہ ایسا ہی رویہ اختیار کرنا چاہتا تھا۔ امریکی فوج نے مگر اسے ’’عزت و وقار‘‘ کے واسطے دیتے ہوئے افغانستان میں مزید کچھ وقت دینے کو مجبور کردیا۔ جو وقت ملا اس میں بھی امریکی افواج افغانستان کو کوئی سمت فراہم نہ کرپائیں۔ اسی باعث اوبامہ کا شدید ترین ناقد ہوتے ہوئے بھی ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہائوس پہنچتے ہی اعلان کردیا کہ وہ افغانستان سے امریکی افواج کا جلد از جلد انخلا چاہتا ہے۔
خارجہ امور کا ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے میں اصرار کرنے کو مجبور ہوں کہ پاکستان کو بطور ریاست ٹرمپ کے ارادوں کو بھانپتے ہوئے فی الفور ایک ایسی حکمت عملی تشکیل دینا چاہیے تھی جو افغانستان سے امریکی افواج کی باعزت واپسی میں ہماری ریاست اور حکومت کے کردار کو امریکی پالیسی سازوں کی نگاہ میں دوستانہ ثابت کرتی۔ ہماری ریاست کے دائمی ادارے مگر ان دنوں پاکستان کے تیسری بار منتخب ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کو ’’مودی کا یار‘‘ اور ’’بدعنوان‘‘ ثابت کرنے میں مصروف تھے۔ نواز شریف کی مودی سے مبینہ ’’یاری‘‘ کو میڈیا کے ذریعے اچھالا گیا۔ بدعنوانی ثابت کرنے کے لئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثارنے خم ٹھونک کر اجرتی قاتل کی طرح ازخود نوٹس لے لیا۔ بالآخر ہماری اعلیٰ ترین عدالت نے گریڈ 20سے 21 تک کے افسران پر مشتمل ایک جے آئی ٹی بنائی جو عزت مآب جج کی براہ راست نگرانی میں نواز شریف سے ’’رسیدیں‘‘ طلب کرنا شروع ہوگئی۔ ریاست پاکستان کی ’’دیگر ترجیحات‘‘ کو ذہن میں رکھتے ہوئے امریکہ نے قطرسے روابط بڑھائے۔ گیس کی دولت سے مالا مال اس خلیجی ریاست سے درخواست ہوئی کہ وہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے راستے بنانے کے لئے طالبان کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے میں کلیدی کردار ادا کرے۔ دریں اثناء زلمے خلیل زاد کو امریکی صدر کا افغان امور کے بارے میں خصوصی مشیرتعینات کردیا گیا۔ ہمارے ہاں نواز شریف سپریم کورٹ کے ہاتھوں تاحیات نااہل قرار پاکر وزارت عظمیٰ سے فارغ کردئیے گئے۔ ان کی جگہ کچھ عرصے کیلئے شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم ہوئے۔ عمران خان کو مگر اس دوران سپریم کورٹ نے ’’صادق اور امین‘‘ ہونے کی سند عنایت کردی۔ مذکورہ سند کے ساتھ وہ انتخابی میدان میں اترے تو ’’آر ٹی ایس‘‘ بھی یوم انتخاب بیٹھ گیا۔ اس ’’معجزے‘‘ کی بدولت وہ اگست 2018میں وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوگئے۔ٹرمپ کا کائیاں ذہن خوب جانتا تھا کہ عمران خان مستقل مزاجی سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حق میں تھے۔ افغانستان میں مقیم امریکی افواج کو بھیجی فوجی رسد کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کیلئے ان کی جماعت دھرنے دیا کرتی تھی۔ ڈرون حملوں کے خلاف بھی تحریک انصاف نے عوامی رائے کی بھرپورترجمانی کی تھی۔ ’’طالبان سے مذاکرات‘‘ کی خواہش کو ذہن میں رکھتے ہوئے ٹرمپ کے کائیاں ذہن اور زلمے خلیل زاد جیسے مشیروں نے عمران خان کی خوشامد شروع کردی۔بطور وزیر اعظم پاکستان انہیں بہت چائو سے وائٹ ہائوس بلوایا گیا۔ ٹرمپ اور عمران خان کی ملاقات شروع ہونے سے قبل سودے بازی کے ماہر امریکی صدر نے یہ اعلان کرتے ہوئے بھارت کو بھی حیران کردیا کہ جاپان کے شہر اوساکامیں ہوئی ایک ملاقات کے دوران نریند مودی نے اس سے درخواست کی تھی کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ثالثی کا کردار ادا کرے اور وہ یہ کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ ٹرمپ نے جو کہانی سنائی ہم سادہ لوح پاکستانیوں کی بے پناہ اکثریت کو بہت پسند آئی۔ عمران خان نے بھی برملا یہ اعلان کردیا کہ امریکی دورے سے واپسی کے بعد وہ یہ محسوس کررہے ہیں کہ جیسے ایک بار پھر پاکستان کے لئے کرکٹ کا ورلڈ کپ جیت کر وطن لوٹ رہے ہوں۔ بدقسمتی مگر یہ ہوئی کہ ان کے دورہء  امریکہ سے واپسی کے چند ہی ہفتوں بعد مودی نے بھارتی آئین کا آرٹیکل 370ختم کرتے ہوئے اپنے قبضے میں موجود جموں وکشمیر کو لداخ سمیت دہلی سے چلائی حکومت کے حوالے کردیا۔ٹرمپ نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء  کے لئے جو معاہدہ کیا تھا بائیڈن نے اس پر ہوبہو عمل کرنے کافیصلہ کیا۔ ہم ایک بار پھر اس ضمن میں بطور ریاست اہم کردار ادا کرنے میں ناکام رہے۔ عالمی میڈیاکو بلکہ فقط چائے کی وہ پیالی یاد ہے جو فیض حمید نے ایک اہم ریاستی ادارے کا نمائندہ ہوتے ہوئے کابل میں کھڑے ہوکر کیمروں کو دکھائی تھی۔بہرحال زلمے خلیل زاد کے لکھے ٹویٹ سے کالم کا آغاز کیا تھا۔ اس کے لکھے پیغام کو سمجھنے کے لئے موصوف کی تاریخ بیان کرنا لازمی تھا۔ 11ستمبر 2024ء کی رات 11بجکر49منٹ پر اس نے جو پیغام لکھا ہے وہ میرے دیکھنے تک ایک لاکھ پچاس ہزار لوگ پڑھ چکے تھے۔ خلیل زاد نے اس کے ذریعے پاکستان کو ’’تیزی سے عدم استحکام‘‘ کی جانب بڑھتے ہوئے دکھانے کی کوشش کی ہے۔ پاک فوج کے سربراہ کو موصوف نے نام لے کر پاکستانی ریاست وحکومت کی تمام ترپالیسیوں کا یک وتنہا ذمہ دار ٹھہرایا۔ میری ناقص رائے میں لیکن اس کے پیغام کا اہم ترین حصہ وہ تھا جس کے ذریعے اس نے دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کا صوبہ بلوچستان اب امریکہ اور یورپ کے کئی ممالک کے دلوں میں دہشت گردی کی علامت ہوئی ’’داعش‘‘ تنظیم کی ’’پناہ گاہ‘‘ میں بدل چکا ہے۔یہ دعویٰ کرنے کے بعد خلیل زاد نے امریکہ کو خبردار کیا کہ پاکستان میں بقول اس کے بڑھتا ہوا ’’عدم استحکام‘‘ پاکستان نہیں بلکہ دنیا کے دیگر ممالک کیلئے بھی ’’دہشت گردی‘‘ کے مسئلہ کو سنگین تر بنادے گا۔ اس کے علاوہ خلیل زاد نے پاکستان کے اقتصادی بحران کا ذکر بھی کیا اور اس ضمن میں آئی ایم ایف سے متوقع معاہدے پر بھی توجہ دلائی۔ نہایت مکاری و ہوشیاری سے زلمے خلیل زاد نے مگر اپنے پیغام کے ذریعے امریکہ کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ واشنگٹن میں رواں برس کے بعد برسراقتدار آئی حکومت کو پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو نظرثانی کی چھلنی سے گزارنا ہوگا۔ اس وقت تک واشنگٹن کیا کرے؟ اس کا جواب خلیل زاد نے نہیں دیا۔ یہ خاموشی بلاسبب نہیں۔ حقیقی مقصد اس کا یہ ہے کہ پاکستان میں اقتصادی وسیاسی بحران کو سنگین تر ہونے دیا جائے۔

ای پیپر دی نیشن