گنڈا پور کا افغانستان سے مذاکرات کا بیان وفاق پر حملہ' وزیر دفاع:توسیع غلط' حق ہے تو سب کو دیں'فضل الرحمن 

Sep 13, 2024

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے پاکستان تحریک انصاف کے گرفتار 10 اراکین اسمبلی کو پارلیمنٹ ہاؤس پہنچا دیا گیا،قائم مقام سارجنٹ ایٹ آرمز کے حوالے کیا گیا۔پولیس کی بھاری نفری ارکان پارلیمنٹ کے ہمراہ پارلیمنٹ ہاؤس پہنچی۔10 ارکان میں شیخ وقاص اکرم، زین قریشی، ملک اویس جھکڑ، ملک عامر ڈوگر، احمد چٹھہ شامل ہیں، زبیر خان وزیر، سید احد علی شاہ، سید نسیم علی شاہ، شیر افضل مروت اور یوسف خان کو بھی پروڈکشن آرڈر پر پارلیمنٹ ہاؤس لایا گیا ہے، اجلاس ختم ہونے پر پولیس واپس لے گئی۔ علاوہ ازیں پارلیمنٹ ہاؤس آمد پر اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی عمر ایوب، چیئرمین پی ٹی آئی گوہر علی خان اور صاحبزادہ حامد رضا نے گرفتار اراکین اسمبلی سے ملاقات کی اور خیریت دریافت کی، گرفتار اراکین نے دوران حراست پولیس کے ناروا سلوک کی شکایت کی۔ بعدازاں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب، پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان اور صاحبزادہ حامد رضا نے سپیکر چیمبر میں سردار ایاز صادق سے ملاقات کی ، حکومت کی جانب سے ، وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ ملاقات میں شریک ہوئے، ملاقات میں پی ٹی آئی اراکین کی گرفتاری سے متعلق بات چیت کی گئی۔ ملاقات کے دوران اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا تھا کہ پارلیمانی تاریخ میں اس رات کو سیاہ رات کے طور پر یاد رکھا جائے گا، ہمارے ممبران کو دہشتگردوں کی طرح گھسیٹ کر لیجایا گیا۔   اس کے بعد  سپیکر ایاز صادق  اپوزیشن کی گیلرے پہنچ گئے،  انہوں نے  پروڈکشن آرڈر پر آئے پی ٹی آئی ارکان اسمبلی سے ملاقات کی ۔وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ قوانین میں ترامیم پارلیمنٹ کا استحقاق،جن قوانین پر صوبوں کو تحفظات ہیں ان پر بیٹھ کر بات کی جائے، وزیر قانون و پارلیمانی امور سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی کو بتایا ہے کہ عوام کی سستے اور فوری انصاف تک رسائی یقینی بنانے کے لئے ضابطہ فوجداری پیکج تیار کیا جارہاہے جسے جلد کابینہ میں منظوری کے لئے جلد پیش کیا جائے گا۔ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کاکہنا ہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپی کے علی امین گنڈاپور کا افغانستان سے خود مذاکرات کا کہنا وفاق پر حملہ ہے۔ قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ سپیکر قومی اسمبلی نے شاندار روایت قائم کی، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہمارا حق نمائندگی سالوں کیلئے چھین لیا گیا تھا، یہ ایوان اور اس کے درودیوار گواہ ہیں، تاریخ کی درستگی ضرور ہونی چاہیے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ وزیراعلیٰ کے پی نے کہا کہ جس راستے پر وزیراعلیٰ کے پی اور ان کے لوگ چل رہے ہیں، یہ ملک کیلئے زہر قاتل ہے۔ پیپلز پارٹی کی 90 کی دہائی میں حکومت تھی، بہت تلخی تھیں، ہم کوہسار یا کسی اور جگہ شام کو اکٹھے مل کر بیٹھ جاتے تھے، یہ بھی تو تھوڑا سا ضمیرکو ٹٹولیں، کیا علی محمد خان نے اس وقت آواز بلند کی تھی، کسی نے آواز بلند کی نہ کسی نے دلاسہ نہیں دیا۔ خواجہ آصف کاکہنا تھا کہ کل یہاں آرٹیکل 6کی بات ہوئی تھی، واحد ممبر ہوں اس پارلیمنٹ کی تاریخ میں جس پر آرٹیکل لگا تھا، 55سال کی دوستی رکھنے والے نے میرے خلاف پریس کانفرنس کی۔ سابق سپیکر اور پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی اسد قیصر نے کہا ہے کہ لکی مروت میں پولیس اور شہریوں کی جانب سے احتجاج جاری ہے، قومی ادارے آئینی حدود میں رہیں ورنہ خدانخواستہ وفاق کو خطرہ ہوسکتا ہے۔ ہمارے ارکان اسمبلی کی گرفتاریوں کی تحقیقات کے لیے آل پارٹی کمیٹی بنائی جائے، جب میں اسپیکر تھا تو میں نے کسی کے پروڈکشن جاری کرنے سے انکار نہیں کیا، تمام سیاسی مقدمات ختم کیے جائیں، جتنا کسی اور ادارے کی عزت ہے اس سے زیادہ پارلیمنٹ محترم ہے اور ہمیں اس کے تقدس کی حفاظت کرنی ہے۔ خیبر پی کے کی سکیورٹی کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے، لکی مروت میں پولیس اور شہریوں کی جانب سے احتجاج جاری ہے، باجوڑ میں پولیس کی جانب سے کام روکنے کی دھمکی دی جا رہی ہے۔ قومی ادارے اپنی آئینی حدود میں رہیں اگر آئینی ادارے حدود سے تجاوز کریں گے تو خدانخواستہ وفاق کو خطرہ ہوسکتا ہے۔  قومی اسمبلی میں تحریری طورپر بتایا گیا ہے کہ گزشتہ  ایک سال میں 33 آئی پی پیزکو 979 ارب 29کروڑ روپے سے زائد کی ادائیگیاں کی گئیں۔  پاورڈویژن کے مطابق  جولائی 2023 سے جون 2024 تک 33 آئی پی پیزکو کیپیسٹی پیمنٹ کی مد میں979ارب 29کروڑ روپیسے زائد ادائیگیاں کی گئیں۔  مقامی اور درآمدی کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والی 8 آئی پی پیزکو 718 ارب روپے ، ہائیڈرل بجلی پیدا کرنیوالے 3 آئی پی پیز کو 106 ارب روپے ، فرنس آئل سے بجلی بنانے والی 11 آئی پی پیزکو ایک سال میں 81ارب 60 کروڑ روپے سے زائد کی کیپیسٹی پیمنٹ کی گئیں۔ بجلی تقسیم کارکمپنیوں سے بجلی چوری کے 84 ہزار 362 واقعات ہوئے ، 291افراد گرفتار کیے گئے۔ 7ہزار68 مقدمات درج ،47 ملازمین برطرف کیے گئے 885381 ملین روپے کے بقایاجات بھی وصول کیے گئے۔ وفاقی وزیر ڈاکٹرخالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کہ  وزیراعظم لیپ ٹاپ سکیم میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کو شامل کیاجائیگا۔
اسلام آباد ( وقائع نگار )  سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ایکسٹنیشن کا عمل فوج سمیت ہرادارے میں غلط ہے اگر یہ حق ہے تو پارلیمنٹ کو بھی ایکسٹینشن کا حق ہے،۔ قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب میں کہا کہ اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ پیش آئے واقعے کی مذمت کرتا ہوں، پروڈکشن آرڈر جاری کرنے پر سپیکر کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں مگر حق تو یہ تھا اس واقعے کے بعد ایوان کو تین دن کیلئے بند کردیا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ آج کے پی کے میں پولیس نے دھرنا دیا ہوا ہے، لکی مروت، بنوں، ڈی آئی خان میں پولیس احتجاج پر ہے، اگر پولیس نے فرائض ادا کرنا چھوڑدیے تو کیا ہوگا ملک کا؟ان کا کہنا تھا کہ ادارے اور اداروں کے بڑے اپنی ایکسٹینشن کے لیے فکر مند ہیں ملک کیلئے نہیں ایکسٹیشن کا عمل فوج سمیت ہرادارے میں غلط ہے اگر یہ حق ہے تو پارلیمنٹ کو بھی ایکسٹینشن کا حق ہے، یہ روایات ٹھیک نہیں، ہم غلط روایت کی بنیاد نہیں ڈالیں گے، آج پارلیمنٹ میں بیٹھ کر ہم کسی کی ایکسٹیشن کی تائید کیوں کریں گے؟ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے ہمارا عدالتی نظام فرسودہ ہوچکا ہے، جتھوں کو ختم کریں اور پارلیمنٹ کا مضبوط بنائیں، عدالتیں سیاسی گروہ بن چکی ہیں، کوئی عدالتیں کسی کو سپورٹ کرتی ہیں کوئی کسی کو، حکومت کو کہوں گا عدالتی نظام میں اصلاحات لائی جائیں، اپوزیشن کے ساتھ مل کر اصلاحات لائی جائیں۔ فوج اور عدلیہ میں معیار ایک لایا جائے۔ جے یو آئی کے سربراہ نے کہا ہے کہ کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ آئینی معاملات کیلئے الگ عدالتیں بنائی جائیں؟   آج کوئی بات کریں تو توہین عدالت ہوجائے گی، بلوچستان پر بات کریں تو ایجنسیاں آجاتی ہیں۔  سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کہا کہ وہ تو ہمارے آئین میں لکھا ہوا ہے کہ ہم فوج اور عدلیہ کے خلاف نہیں بول سکتے لیکن میرے پارلیمنٹیرینز کو پارلیمنٹ سے گرفتار کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ چیف جسٹس کے لیے پارلیمان اور جوڈیشل کونسل کا اجلاس ہونا چاہیے، عدالتی اصلاحات ہونی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ انیسویں آئنی ترمیم کیلئے ایک جج نے پارلیمان کو بلیک میل کیا،  اس ترمیم کو ختم ہونا چاہیے۔  بعدازاں قومی اسمبلی کی تشکیل دی گئی خصوصی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب میں مولانا فضل الرحمان  نے کہا کہ کیا یہ حقیقت نہیں کہ سیاست میں تقسیم اور اپنی اپنی سوچ ہوتی ہے؟ ریاستی ادارے عدلیہ، فوج بیورو کریسی کو بھی کیا حق ہے کہ وہاں گروہ بندی ہوجائے؟، اس روش سے ہمیں فوج اور عدلیہ، بیورو کریسی کو بچانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے چیفس بننے کے لیے ایک ہی معیار ہونا چاہیے، مگر انیسویں ترمیم میں ایک چیف نے ہمارے ہاتھ مروڑ کر ہم سے ترمیم کرائی۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں لاجز میں ہمارے ممبرز کو گرفتار کیا گیا وہ تب بھی غلط تھا اب بھی غلط ہے، ایک آرمی چیف باجوہ نے ہماری بازو مروڑ کر اپنی مرضی کے فیصلے کروائے۔انہوں نے کہا کہ کے پی اور بلوچستان میں علیحدگی کے نعرے لگ رہے ہیں، بلوچستان میں کچھ سکولوں میں پاکستان کا ترانہ نہیں بجایا جاسکتا، پاکستان کا جھنڈا نہیں لگایا جاسکتا، معاشرتی علوم نہیں پڑھایا جاتا، میرے گائوں کے قریب 50 سے زیادہ سرکاری لوگ اٹھا کر لے گئے، آج میں اپنے علاقے کا دورہ نہیں کرسکتا، میرے علاقوں کی گلیوں میں رات دن دہشت گرد بیٹھے رہتے ہیں، ملک سے دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے ہمیں اداروں کے ساتھ مل بیٹھنا، ہم سب کو مل کر کام کرنا چاہیے۔

مزیدخبریں