اہل ایمان نے ہر دور میں منصب ختم نبوت کی حفاظت کی

حافظ محمد ابراہیم نقشبندی
عقیدہ ختم نبوت دین اسلام کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔ یہ دین اسلام کی اساس اور بنیاد ہے۔ بنیاد مضبوط ہو تو وہ تعمیر/ بلڈنگ قائم رہتی ہے، برقرار رہتی ہے ورنہ بہت جلدمنہدم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح دین اسلام کی بنیاد عقیدۂ ختم نبوت پر قائم ہے۔ اگر یہ عقیدہ ہمارے دلوں میں پختہ ہو گاتو دین اسلام کی بنیاد بھی قائم ومضبوط رہے گی ورنہ اس عقیدے میں تھوڑا سا بھی شک دین اسلام کی عمارت کو ایک ہی جھٹکے میںگرادے گا۔
عقیدہ ختم نبوت کا مطلب ہے کہ نبی کریم ﷺ کے بعد دنیا میں کوئی بھی نیا نبی پیدا نہیں ہو سکتا اور نہ ہی بطور نبی کے کوئی نبی آ سکتا ہے۔ جو شخص اس عقیدہ کو نہیں مانتا وہ قطعاً مسلمان کہلانے کے قابل نہیں لیکن اس امت میں بہت سے بدباطن اور کذابوں نے نبی کریمﷺ کی زندگی میں بھی اور آپﷺ کے وصال کے بعد کے بعد بھی نبوت کا دعویٰ کیا اورکچھ عقل کے مارے بدبختوں نے ان کی اس بات کو مان لیا۔
حضور خاتم النبیینﷺ کی حیات مبارکہ کے آخری زمانے میں بعض جھوٹے مدعیان نبوت نے سراٹھایا اور کفر وارتداد پھیلانے کی مذموم کوشش کی، مگر نبی کریم ﷺکی تربیت یافتہ جماعت صحابہ کرام ؓ نے آپ ہی کے حکم پر ان فتنوں کے خلاف جہاد کر کے انہیں کچل کر رکھ دیا۔مسیلمہ کذاب، اسود عنسی اور طلیحہ کو اُن کے انجام تک پہنچایا۔ امیر المؤمنین  سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے مسیلمہ کذاب کے ارتداد کے خلاف جہاد کر کے قیامت تک تحریکِ تحفظ ختم نبوّت کا علم بلند کر دیا۔
ماضی کے مختلف ادوار میں کئی بد بخت افراد نے دعویٰ نبوت کرکے مسلمانوں میں افتراق پیدا کرنے اور انہیں گمراہ کرنے کی گھناؤنی حرکتیں کیں۔ مگر ہر دور میں اہل ایمان اور حق کے طرف داروں نے ان کے خلاف بھرپور مزاحمت کی، منصب ختم نبوت کی حفاظت کی اور مسلمانوں کو گمراہی اور ارتداد سے بچایا۔
برصغیر میں انیسویں صدی کے دوران جہاں اور بہت سے فتنے اٹھے وہیں ایک فتنہ قادیانیت کے نام سے جھوٹے مدعی نبوت کا بھی ظاہر ہوا۔ جسے تمام تر سپورٹ اور حمایت انگریز کی حاصل تھی کیونکہ یہ انگریز کا ہی خود کاشتہ پودا تھا،اس لیے اس کی بھی تمام تر وفاداریاں انگریز کے ساتھ ہی خاص تھیں،درحقیقت انگریز کی تبلیغ جب برصغیر میں مسلمانوں کے درمیان کامیاب نہ ہوئی اور ان کی تبلیغ سے ایک بھی مسلمان اپنا مذہب چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوا تو انہوں نے سوچا کہ کیا وجہ ہو سکتی ہے ہم اس مشن میں کامیا ب نہیں ہو پا رہے ہیں۔ تب ان کے سامنے یہ چیز آئی کہ مسلمان جب تک ایک اللہ، ایک نبی اور ایک کتاب پر متحد ہیں تب تک انہیں کوئی بھی دین اسلام سے ہلا نے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ 
 انہوں نے مسلمانوں کے اتحاد کو ختم کرنے کے لیے مرزا غلام احمد قادیانی کو تجویز کیا اور اس کے ذریعے مسلمانوں کے اتحاد کو توڑنے کی مکمل کوشش کی، اور اس فرقہ قادیانیت کی انگریز نے مکمل آبیاری بھی کی اور اس کو انگریزوں کی جانب سے ہر طرح کی اور ہر وقت سپورٹ بھی حاصل رہی،اسے مالی اعتبار سے کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دی۔اس کے نتیجے میں مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی انگریزوں کی مکمل حمایت کی۔اس نے پہلا کام ان کے کہنے پہ یہ کیا کہ جہاد کو منسوخ قرار دے دیا ۔
علمائے اسلام ابتداء ہی سے اس فتنہ کے ناپاک ارادوں کو بھانپ گئے تھے اور روز اول سے ہی اس کے کفر کا فتویٰ دے چکے تھے لیکن اب ضرورت اس بات کی تھی کہ اب اس فتنے کو قانونی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش کروا دیا جائے۔ اس بارے کئی تحریکیں اٹھیں اور اپنا اپنا کام کیا لیکن بعض تحریکیں بعض تاریخوں کو ’’تاریخ‘‘ بنا دیتی ہیں، جیسے 1953ء کی تحریک ختم نبوت نے 7 ستمبر 1974ء کو تاریخ بنایا۔ اسلامیانِ پاکستان نے حصولِ آزادی وطن کی بنیاد کلمہ طیبہ پر رکھی اور یہ نعرہ بلند کیا ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الااللہ‘‘۔ ان کے رگ و ریشے میں کلمہ طیبہ اپنی حقیقت و معنویت کے ساتھ موجود ہے۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی اس کلمہ کے الفاظ و معانی اور حقیقت میں رد و بدل کر سکے؟ یہاں کے مسلمان غربت، کرپشن، مہنگائی، بے روزگاری اور اقتصادی بحرانوں کو  غرض یہ کہ ہر قسم کی مشکلات کو باآسانی سہہ سکتے ہیں لیکن اسلامی نظریات بالخصوص ناموس رسالت اور ختم نبوت جیسے عظیم الشان اور حساس موضوع پر مداہنت سے کام نہیں لے سکتے، اس معاملہ میں کسی قسم کی حمایت یا نرمی کی توقع قطعا ان غیور مسلمانوں سے نہیں کی جا سکتی یہ نا ممکنات میں سے ہے۔
 7 ستمبر 1974ء کا دن وہ تاریخ ساز فیصلے کا دن ہے جو عوامی طاقت نے جمہوری و سیاسی زبان سے صادر کیا۔حکومت نے ابتدائی طور پر تحریک کو ختم کرنے کی بھر پور کوشش کی اورتحریک ختم نبوت کے قائدین کی اکثریت تحفظ ناموس رسالت کے مطالبے کی پاداش میں جیل کی نذر ہوگئی،مگر ان تمام معاملات نے تحریک کو ایک نئی جلا بخشی اور تحریک پھیلتی چلی گئی۔بالآخر حکومت نے قوم کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے سانحہ ربوہ اور قادیانی مسئلے پر سفارشات مرتب کرنے کے لیے پوری قومی اسمبلی کو خصوصی کمیٹی قرار دیا۔ 7ستمبر1974ء قادیانیوں کے دونوں گروپوں (مرزائی اور لاہوری گروپ) کو قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے قائد ایوان کی حیثیت سے خصوصی خطاب کیااور عبدالحفیظ پیر زادہ نے آئینی ترمیم کا تاریخی بل پیش کیا۔یہ بل متفقہ رائے سے منظور کیا گیا تو حزبِ اختلاف اور حزبِ اقتدار کے ارکان فرطِ مسرت سے آپس میں بغل گیر ہو گئے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ رب العزت ختم نبوت کے تحفظ کی اس تحریک میں شہیدہونے والے شہداء کے درجات کو بلند فرمائے اور اس تحریک میں کسی بھی طرح حصہ لینے والے افراد کی کاوشوں کو قبول فرما کر اُن کے درجات کی بلندی کا سبب بنائے۔آمین!

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...