علماء نے ہر دور میں عقیدہ ختم نبوت کی پاسداری کی

 حافظ مسعود عبدالرشید اظہر 
ختم نبوت ۔۔۔۔اسلام کی اساس اور اہم ترین بنیادی عقیدہ ہے ۔ دین اسلام کی پوری عمارت اس عقیدے پر کھڑی ہے ۔ یہ ایک حساس عقیدہ ہے اس میں شکوک و شبہات کا ذرا سا بھی رخنہ پیدا ہو جائے تو مسلمان نہ صرف اپنی متاع ایمان کھو بیٹھتا ہے بلکہ وہ امت محمدیہ سے بھی خارج ہو جاتا ہے ۔ نبی مکرم ،  رسول معظم ، رحمت عالم دو ؐکو صادق و مصدق سمجھنا اور آپؐ کی نبوت و رسالت کو آخری تسلیم کرنا ایمان و ہدایت، ابدی کامیابی اور نجات کی بنیاد ہے ۔ قرآن مجیدا ور احادیث نبویہ ؐکی متعدد نصوص اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ سیدنا محمد رسولؐ قیامت تک اللہ کے آخری پیغمبر ہیں ۔آپؐ کے بعد نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہے جبکہ اس عقیدے سے انکار یقینا کفر و ارتداد ہے جس سے کوئی تاویل نہیں بچا سکتی۔ 
صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے لیکر آج تک تمام امت مسلمہ کا اس پر اجماع ہے ۔ اس عقیدے کا دفاع پورے دین ِ اسلام کا دفاع ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ حضور اکرمؐ کی حیات مبارکہ کے آخری دور سے لے کر آج تک نبوت کے کذاب دعوے دار اپنی منحوس صورتوں کے ساتھ دنیا کے مختلف خطوں میں نمودار ہوتے رہے ہیں ۔تاہم مجاہدین ختم نبوت نے ہر دور میں بفضلہ تعالیٰ منکرین ختم نبوت کی بیخ کنی کی اور ا ن کے جھوٹے دلائل کارد کیا ہے ۔ 
بر صغیر پاک و ہندمیں انگریز کے خود کاشتہ پودے مرزا قادیانی کی طرف سے دستار ختم نبوت پر حملہ اسلامیان بر صغیر کی غیرت ایمانی کو للکارنے اور جوش دلانے کے مترادف تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ جب مرزا  قادیانی نے نبوت کادعوی کیا تو مجاہدین ختم نبوت اس فتنہ کی بیخ کنی اور سر کوبی کے لیے میدان عمل میں کود پڑے ، جس طرح سے مسلمان علماء اور عوام وخواص نے اس فتنے کا مقابلہ کیاوہ غیرت و حمیت اور جانثاری کا ایک روشن باب ہے ۔ مسلمانوں کا نبی مکرم ، رحمت عالم کے آخری نبی ہونے پر اجماع اور جذبہ جہاد انگریز سامراج کے لیے سوہان روح بنا ہواتھا ۔یہ جہاد کاجذبہ ہی تھا جو مسلمانوں کو انگریزوں کے مقابلے میں بار بار صف آرا کرتا اور بار بار انگریزوں کو شکست فاش سے دوچار کرتا رہا ۔پھر انگریزاس نتیجے پر پہنچے کہ جب تک مسلمانوں کے دلوں سے ان کے نبیؐ کی محبت اور جہاد کاجذبہ ختم نہیں ہوجاتا ان کے لئے آرام اور سکون سے حکومت کرنا ممکن نہیں ۔تب سرکار انگلشیہ کے دل میں یہ شدید خواہش پیدا ہوئی کہ کسی طرح سے مسلمانوں کے دلوں سے حضورؐ کی محبت اور جہاد کی روح ختم ہوجائے ۔ اب چونکہ ایک نبی کے حکم میں ترمیم و تنسیخ دوسرے نبی  کے ذریعے سے ہی ہوتی ہے ۔ چنانچہ حکومت برطانیہ کی سرپرستی اور لالچ پر سیالکوٹ کی ضلع کچہری کے ایک منشی مرزاقادیانی  نے مسیلمہ کذاب کی جانشینی اور اسود عنسی کی معنوی ذریت کا ثبوت دیتے ہوئے نبی اور رسول ہونے کا دعوی کردیا۔ یہ  منشی گورداسپور (بھارت )کی تحصیل بٹالہ کے ایک پسماندہ گائوں ’’ قادیان ‘‘ کا رہنے والا تھا ۔ آنجہانی مرزا نے پہلے خود کو عیسائیت اور ہندو مخالف مناظر کی حیثیت سے متعارف کروایا۔اس طرح سے مسلمانوں کی جذباتی، نفسیاتی ہمدردیاں اور قبولیت حاصل کی پھر کبھی مجدد، کبھی محدث ، کبھی ظلی نبی ، کبھی بروزی نبی ، کبھی مہدی ، کبھی مثل مسیح اور کبھی مسیح معود ہونے کے دعوے کرتا رہا اور آخر کار باقاعدہ امرو نہی کے حامل ایک صاحب شریعت نبی ہونے کا مدعی بن بیٹھا اور اعلان کیا کہ وہ خود محمد رسولؐہے ( نعوذباللہ )
 مرزا قادیانی نے انگریزوں کی حمایت کو افضل ترین عمل اور جہاد کو حرام قرار دیا اورانگریزوں کی حمایت اور وفاداری میں بیشمار کتابیں لکھیں ۔وہ اور اس کا پورا خاندان انگریز کا تابع دار ، وفادار اور نمک خوار تھا ۔ مرزا قادیانی اپنی کتابوں میں لکھتا ہے : میں نے انگریزی حکومت کی حمایت اوروفاداری میں اس قدرلٹریچر شائع کیا ہے کہ اس سے پچاس الماریاں بھر سکتی ہیں ۔ وہ اپنے خاندان کی انگریز کے لیے خدمات کا تعارف کراتے ہوئے لکھتا ہے : میں ایسے خاندان میں سے ہوں جو اس گورنمنٹ ( برطانیہ) کا پکا خیر خواہ ہے- میرا والد غلام مرتضیٰ گورنمنٹ کا ایک وفادار اور خیر خواہ آدمی تھا جس کو انگریز کے دربار میں عزت افزائی کے لیے کرسی ملتی تھی۔ انگریز نے بھی اس خاندان کی خدمات کا اعتراف کیا ہے ۔ چنانچہ لیپل گریفن ’’ اپنی کتاب ’’ تذکرہ روسائے پنجاب جلد دوم میں لکھتا ہے 1857 ء میں یہ خاندان ، قادیان ضلع گورداس پور میں دوسرے تمام خاندانوں سے زیادہ ہمارا نمک حلال رہا۔مرزا غلام قادیانی انگریز کے لیے اپنی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے مزید کہتا ہے :   
میں نے پچاس ہزار کے قریب کتابیں اور رسائل اور اشتہارات چھپوا کر اس ملک اور نیز دوسرے بلاد اسلامیہ میں اس مضمون کے شائع کیے کہ گورنمنٹ انگریزی ہم مسلمانوں کی محسن ہے لہذا ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ اس گورنمنٹ کی سچی اطاعت کرے۔چنانچہ آج بھی دیکھتے ہیں کہ مرزا غلام قادیانی ، اس کی ذریت اور اس کے پیروکار دنیا بھر میں ہمیں اسلام کے دشمنوں کی صفوں میں کھڑے نظر آتے ہیں یہاں تک کہ مسلمانوں کے بدترین دشمن اسرائیل میں بھی ان کے مشن کام کررہے ہیں ۔
تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب بھی کسی بدبخت نے دستار ختم نبوت پر دست درازی کی ناپاک کوشش کی تو مسلمانوں نے پوری قوت سے ایسی طاقتوں کا مقابلہ کیا ہے ۔ مسیلمہ کذاب سے لے کر اسود عنسی تک تاریخ میں بے شمار واقعات محفوظ ہیں ۔ چنانچہ جیسے ہی مرزا قادیانی  نے نبوت کا دعوی کیا تواس کے ساتھ ہی علمائے حق اس فتنہ کی سرکوبی کے لیے میدان عمل میں کمر بستہ ہوگئے ۔ برصغیر میں     جن علما نے اسلام کے پردے میں چھپے فتنہ قادیانیت کو سب سے پہلے بے نقاب کیا وہ شیخ الکل فی الکل سید نذیرحسین محدث دہلوی اور ان کے شاگرد خاص ابو سعید مولانا محمد حسین بٹالوی تھے ۔ تحریک آزادی کے نڈر ، بیباک رہنما اور تحریک ختم نبوت کے مجاہد آغا شورش کاشمیری مرحوم قادیانیت کی تردید میں علمائے اہلحدیث کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : علمائے اہل حدیث نے مرزا صاحب کے کفر کا فتویٰ دیا۔ ان کا فتویٰ ’’ فتاویٰ نذیریہ ‘‘ جلد اول کے صفحہ 4 پر موجود ہے۔ مرزا صاحب اس فتویٰ سے تلملا اٹھے۔ اور شیخ الکل میاں نزیر حسین کو مناظرہ کا چیلنج دیا۔ میاں صاحب سو برس سے اوپر ہو چکے تھے۔ اور انتہائی کمزور تھے۔ آپ نے مرزا صاحب کے چیلنج کو اپنے تلامذہ کے سپرد کیا۔ مرزا صاحب اپنی عادت کے مطابق فرار ہو گئے۔ جن علمائے اہلحدیث نے مرزا صاحب اور ان کے بعد قادیانی امت کوزیر کیا ان میں مولانا محمد بشیر سہوانی‘ قاضی محمد سلیمان منصورپوری‘ اور مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی سرفہرست تھے لیکن جس شخصیت کو علمائے اہلحدیث میں فاتح قادیان کا لقب ملا وہ مولانا ثناء ا للہ امرتسری تھے۔ انہوں نے مرزا صاحب اور ان کی جماعت کو لوہے کے چنے چبوا دئیے۔ اپنی زندگی ان کے تعاقب میں گزار دی۔ ان کی بدولت قادیانی جماعت کا پھیلاؤ رک گیا۔ مرزا صاحب نے تنگ آ کر انہیں 15اپریل 1907ء کو خط لکھا کہ میں نے آپ سے بہت دکھ اٹھایا ہے اور صبر کرتا رہا ہوں ، اگر میں کذاب اور مفتری ہوں جیسا کہ آپ لکھتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہلاک ہو جاؤں گا ورنہ آپ سنت اللہ کے مطابق مکذبین کی سزا سے نہیں بچیں گے۔  مولانا ثناء اللہ نے 15 مارچ1948ء کو سرگودھا میں رحلت فرمائی۔ وہ مرزا صاحب کے بعد 40 سال تک زندہ رہے۔ ان کے علاوہ مولانا ابو سعید محمد حسین بٹالوی‘ مولانا عبداللہ معمارامرتسری ‘ مولانا محمد شریف کڑیالوی‘ مولانا عبدالرحیم لکھو والے‘ مولانا حافظ عبداللہ روپڑی‘ مولانا حافظ محمد گوندلوی‘ شیخ الحدیث مولانا محمد اسمٰعیل گوجرانوالہ‘ مولانا محمد حنیف ندوی‘ بابو حبیب اللہ‘ اور حافظ محمد ابراہیم کمیرپوری وغیرہ نے قادیانی امت کو ہر دینی محاذ پر خوار کیا۔ اس سلسلہ میں غزنوی خاندان نے عظیم خدمات سر انجام دیں۔ مولانا سید داؤد غزنوی جو جماعت اہلحدیث کے امیر اور مجلس احرار اسلام کے جنرل سیکرٹری رہے ، انہوں نے اس محاذ پر بے نظیر کام کیا۔ عصر حاضر میں شہید ملت علامہ احسان الہی ظہیر ،والد گرامی مجاہد ختم نبوت ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر نے بھی قادیانیت کے محاذ پر شاندار اور تاریخ ساز کام کیا ۔
اور پھر عصر حاضر میں مولانا عبداللہ گورداسپوری مرحوم کے فرزند ارجمند محسن ملت ، محافظ عقیدہ ختم نبوت ، مورخ اہلحدیث ، پروفیسر ڈاکٹر بہائوالدین سلیمان اظہر نے تحریک ختم نبوت کے باب میں تن تنہا جو کام سرانجام دیا ہے اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے ۔ ڈاکٹر بہائوالدین سلمان اظہر نے تحریک ختم نبوت پر تقریباََ 75کے  قریب مجلدات نہ صرف تصنیف کیں بلکہ انھیں اپنے خرچے پر طبع کرواکر دنیا بھر میں مفت تقسیم بھی کروایا اور اس کام میں ان کے صاحبزادے ہمارے بھائی سہیل اظہر گورداسپوری کی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں ۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...