چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ کسی ایک فرد کا نہیں ہوسکتا، بلاول

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ کسی ایک فرد کا نہیں ہوسکتا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ججز سے متعلق ترمیم جیسے معاملے پر اتفاق رائے کسی بھی پارلیمنٹ کے لیے چیلنج ہوتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ کسی ایک فرد کا نہیں ہوسکتا، ایک بڑا فورم بنا ہے وہاں یہ فیصلہ کیا جاسکتاہے، اس پر پیپلزپارٹی کا مؤقف پارٹی کے منشور کے مطابق ہے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ عدلیہ میں تعیناتی کا جوعمل ہے وہ آف دی جوڈیشری، فار دی جوڈیشری، بائی دی جوڈیشری ہے، میں اس میں یک طرفہ کوئی تبدیلی نہیں لانا چاہوں گے، میں سمجھتا ہوں اس عمل میں تبدیلی لانا بہت ضروری ہےبلاول بھٹو زرداری کاکہنا تھا کہ جو بھی فیصلے ہوں گےان کو جتنے اتفاق رائے سے کرسکتے ہیں اتنی ہی اس کو طاقت ملےگی۔چئیرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ شہید بھٹو کو اب انصاف ملا، ان کی تیسری نسل کو انتظار کرنا پڑا کہ ججز انصاف دیں گے، عام پاکستانی کی کیا امید ہوسکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ میثاق جمہوریت پر پیپلزپارٹی کی حکومت نے 90 فیصد عمل درآمد کیا، عدلیہ کے لیے بھی میثاق جمہوریت میں تجاویز دیں، وہ جماعت کےمنشور کا حصہ ہے، عدلیہ کو طاقتور بنانا چاہتے ہیں تاکہ کیسز کا بوجھ ختم ہو اور عام آدمی کو فوری انصاف ملے۔انہوں نے کہا کہ آئینی ترمیم سے متعلق کمیٹی میں ابھی تو صرف باتیں ہی ہورہی ہیں، آج کمیٹی میں پیپلزپارٹی کا مؤقف تھاکہ ہم چاہتے ہیں میثاق جمہوریت کی روح کو پھر سےقائم کریں، ہم مثبت طریقے سے اس عمل میں حصہ لینا چاہیں گے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ سیاست میں ہونے کا مقصد یہ نہیں کہ حکومت میں رہیں، ہم اگرحکومت میں ہوں اور مسائل کا حل نہ نکال سکیں توحکومت میں نہیں ہونا چاہیے۔گورنر راج کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ پیپلز پارٹی گورنر  راج کے حق میں ویسے تو نہیں ہوتی، اگر مجبور ہوکر گورنر راج لگایا جاتاہے تو ہم نے اٹھارویں ترمیم میں ایسی ترامیم کیں کہ صوبائی اسمبلی کے پاس یہ اختیار ہوکہ اگر گورنر راج لگ بھی جائے تو ہم ہمیشہ کے لیےگورنر راج نہیں لگنےدیں گے۔بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پہلی مرتبہ ایسا ہورہا ہے کہ قومی سلامتی کے معاملے پر بھی اتفاق رائے نہیں ہورہا، بلوچستان میں دہشتگردی کے واقعات ہوئے وہ سب کے سامنےہیں، خیبرپختونخوا کےحالات اس سے بھی زیادہ برے ہیں۔بلاول بھٹو نے کہا کہ بہت خطرناک کہانیاں سامنے آرہی ہیں، وزیراعلیٰ کے پی اس پر اپنے گاؤں میں مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔چئیرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ اس صورتحال کا مقابلہ صوبائی اور وفاقی حکومت کو مل کر کرنا ہے، پہلی دفعہ نظرآرہاہےکہ نہ صرف قومی سلامتی کا سوال ہے بلکہ عوام کے لیے امن قائم کرنا خطرے میں ہے، پہلی دفعہ ہےکہ اس معاملے پربھی سیاست کھیلی جارہی ہے  اور اتفاق رائے نہیں ہورہا۔بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ملک کی سیاسی صورتحال سے ہر پاکستانی مایوس ہے، کوئی شہری اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ ہماری سیاست ٹوٹ چکی ہے۔سبق وزیر خارجہ نے کہا کہ پارلیمان کو فعال کردار ادا کرنا چاہیے، قانون سازی  کرنی چاہیے  اور عوام کو ریلیف فراہم کرنی چاہیے، ہم جب یہاں پہنچتےہیں یا عام آدمی ٹی وی پر دیکھتا ہےتو  اسے نظر آتا ہے کہ نظام نہیں چل رہا۔انہوں نے کہا کہ ہم اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو نیب کے لیے ایک مؤقف اور حکومت میں آتے ہیں تو دوسرا مؤقف ہوتا ہے، اگرکرپشن کا مقابلہ کرنا ہے تو نیب ریفارمز کے نظام کو فالو کرنا پڑےگا۔انہوں نے مزید کہا کہ آزاد صحافت بھی ضروری ہے اور ذمے دار صحافت بھی ضروری ہے، منتخب نمائندے جلسوں میں میڈیا کو گالیاں دیں گے تو ان سےکیا توقع رکھیں، میڈیا کا بھی کوئی معیار ہونا چاہیےکہ ہر جھوٹ نہ چلے، اگر کوئی غلط خبر چھپی ہے تو اس کی وضاحت ہونی چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...