امریکہ اور طابان میں امن مذاکرات

گزشتہ دنوں امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے بغیر کسی شیڈول اور سرکاری اطلاع کے افغان صدر حامد کرزئی سے ملاقات کیلئے دورہ کیا۔ سرکاری اطلاعات کے مطابق مقصد 2014کے آخر تک امریکی اتحادی افواج کے افغانستان سے انخلاءکے بعد افغانستان میں امن قائم کرنے کی کاوشوں ‘ افغان نیشنل آرمی کو امن وسکیورٹی کی ذمہ داریوں دئیے جانے اور یہاں عام انتخابات کے انعقاد کی کاوشوں کا جائزہ لینا بتایا گیا ہے۔
دونوں رہنماﺅں نے تنہائی میں ملاقات کے بعد صدارتی محل میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا جس میں حامد کرزئی نے اس بات کی پرزور انداز میں تردید کی کہ انہوں نے گزشتہ ماہ ایک پریس کانفرنس میں طالبان حملوں کو امریکی مفادات کے ساتھ جوڑا تھا۔ صدر نے کہا کہ ”میڈیا نے میرے الفاظ کو غلط معنی دئیے“ جان کیری نے اس پریس کانفرنس میں کہا کہ ”مجھے مکمل طور پر یقین ہے کہ صدر کرزئی اس بارے میں یکسو ہیں کہ امریکہ کو طالبان سے اس کے علاوہ اور کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ وہ مذاکرات کی میز تک آئیں اور افغانستان کے مستبقل کی صورت گری میں اپنا کردار ادا کریں“۔
امریکہ مخدوش داخلی اقتصادی صورتحال اور رائے عامہ کے دباﺅ کے تحت دہشت گردی کے خلاف جاری بش وار کو سمیٹنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ افغانستان میں گیارہ سالوںسے جاری اس جنگ سے مغربی اقوام کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکا ہے ۔ اربوں کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود نہ تو افغانستان میں فوجی فتح حاصل کی جاسکی ہے اور نہ ہی کسی ممکنہ و متوقع دہشت گردی کے عفریت سے نجاب مل سکی ہے لیکن ایک کام ضرور ہو ا کہ عالمی معیشت کساد بازاری کا شکار ہو گئی ہے ۔ اوباما انتظامیہ 2014کے آخر تک افغانستان میں ملٹری آپریشن ختم کرنے کا فیصلہ بھی کر چکی اور اس پر عمل درآمد بھی شروع ہو چکا ہے لیکن امریکہ اتحادی افواج کے ملٹری آپریشن کے خاتمے کے بعد کیا افغانستان میں امن قائم ہو جائے گا۔کیا یہاں مجوزہ تعمیر وترقی کا عمل شروع ہو سکے گا؟ یہ ایسے سولات ہیں جن کے جواب نہ تو امریکیوں کے پاس ہیں اور نہ ہی حامد کرزئی کے پاس۔ افغانستان کے حال پر بھی طالبان یعنی افغانستان کے غیور پشتون عوام چھائے ہوئے ہیںجو حملہ آور فوجوں کے خلاف 2001سے سربکفن ہیں انہوں نے اتحادی افواج کے افغانستان پر قبضے اور فتح کے خواب پورے نہیں ہونے دئیے اور افغانستان کے مستقبل کی کنجی بھی انہی کے ہاتھ میں ہے۔ امریکی یہ بات جان چکے ہیں کہ طالبان بشمول حکمتیار اور حقانی نیٹ ورک کے ساتھ معاملات طے کئے بغیر نہ تو افغانستان میں ایسی حکومت تشکیل دیجا سکتی ہے جو افغان عوام کا اعتماد رکھتی ہو اور موثر انداز میں یہاں امن قائم کرسکے اور نہ ہی یہاں تعمیر و ترقی کے کام ہو سکتے ہیں اسلئے امریکی انتظامیہ سر توڑ کاوشیں کر رہی ہے کہ طالبان کو کسی نہ کسی طرح بات چیت و مذاکرات پر آمادہ کرکے امن بات چیت کی طرف لایا جائے لیکن طویل کاوشوں کے باوجود امریکی اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ 9/11/2001 کے بعد امریکی حکومت نے طالبان لیڈر ملا محمد عمر کو یہ بات منانے کی حتی الوسع کاوشیں کیں کہ وہ امریکہ پر دہشت گرد حملوں کے ذمہ دار اسامہ بن لادن اور انکے ساتھیوں کو امریکہ کے حوالے کر دیں تاکہ انکے ساتھ انصاف کیا جائے۔ امریکی اس سے پہلے بھی ایسی کئی ناکام کاوشیں کر چکے تھے۔
معروف امریکی لکھاری بروس ریڈل کے مطابق 1998میں صدر کلنٹن نے امریکی سفیر بل رچرڈسن کے ذریعے ملا عمر کو پیغام بھیجا کہ وہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کر دیں 2001تک ملا عمر نے امریکہ کی ایسی 30درخواستیں مسترد کیں حتی کہ 9/11کے بعد بھی ایسی کسی کاوش کی کامیابی کا امکان نہیں تھا ۔ سب سے اہم اور فیصلہ کن کاوش پاکستان نے اپنے آئی ایس آئی کے چیف کو بھیج کر کی لیکن وہ بھی کامیاب نہ ہو سکی اور امریکہ نے اکتوبر 2001میں القاعدہ اور طالبان کے خلاف آتش و آھن کا جہنم کھول کر انہیں پتھر کے دور تک پہنچانے کا اعلان کر دیا۔ گزرے گیارہ سالوں میں امریکہ نے دنیائے حرب و ضرب کی اعلی اور مہلک ترین مشینوں کو آزما لیا ہے ۔ پہاڑوں کو روئی کا گالا بنا دینے والے ڈیزی کٹر بموں کو بھی استعمال کر کے دیکھ لیا۔ افغانوں کو تقسیم کرنے کی کاوشیں بھی کر دیکھیں لیکن وہ ملاءعمر اور اس کے افغان ہم وطنوں کے عزم میں کسی قسم کی کمزوری نہیں لا سکے ۔ ستمبر 2011میں ایک شخص نے انہیں امن کا سفیر‘ ملا عمر اور پاکستان میں طالبان کی کوئٹہ شوری کا نمائندہ بن کرافغان حکومت کے نامزد کردہ چیف نمانئندے پروفیسر برہان الدین ربانی سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ وہ شخص ربانی تک ملا عمر کا امن کا پیغام پہنچانا چاہتا تھا۔ ملاقات میں اس نے استاد ربانی کو گلے لگایا اور اگلے جہاں سدھار گیا۔ وہ ایک خود کش حملہ آور تھا جس نے اپنی پگڑی میں بم چھپا رکھا تھا۔ 9/11کے بعد امریکہ نے ان سے ہتھیار کی زبانی بات کرنے کا ارادہ کیا تو وہ اسے اسی زبان سے جواب دے رہے ہیں۔ کیونکہ اس زبان میں بات چیت کرنے میں ماہر ہیں۔ 2009سے افغان صدر حامد کرزئی، جن کی حکومت کو امریکی اور ناٹو افواج کی تائید و حمایت بھی حاصل ہے۔ طالبان کو ترغیب دے رہے ہیں کہ وہ جنگ کے خاتمے کیلئے بات چیت کے عمل میں شریک ہوں۔
ایسی بات چیت کا عمل شروع بھی ہو ا تھا۔ لیکن یہ عمل دو وجوھات کے باعث پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکا اولاً افغان معمالات میں بھارت کی شمولیت ‘ پاکستان کیلئے قابل قبول نہیں ہے۔ امریکہ بھارت کو اپنا سٹریٹجک پارٹنر سمجھتا ہے اور اسے بحر ہند میں پو یس مین کے طور پر عسکری قوت بنا رہا ہے۔ جنوب ایشیائی خطے میں بھی اسے اپنا پارٹنر سمجھ کر آگے بڑھا رہا ہے۔ افغان معاملات میں اس کا کردار پاکستانی مفادات کیلئے خطرناک ثابت ہو رہا ہے ۔ اسلئے پاکستان کے بغیر طالبان سے مذاکرات کامیاب ہونے کے امکانات زیادہ روشن نہیںہیں۔
دوم افغانوں کو جنگ بازی‘ مقاومت اور حرب و ضرب کے علاوہ کسی اور فن میں مہارت نہیں ہے وہ میدان جنگ کے کھلاڑی ہیں ۔ انہیں مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کا سلیقہ نہیں آتا وہ سفارتی زبان سمجھنے وسمجھانے کی نہ تو صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ اس کا انہیں کوئی تجربہ ہے۔ اسلئے امن مذاکرات کی کامیابی کے امکانات صفر ہیں۔

ای پیپر دی نیشن