بلوچستان کا بدلتا ہوا سیاسی منظرنامہ

مسلم لیگ کے رہنما شہباز شریف نے گذشتہ روز بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کا دورہ کیا۔ اس موقع پر انہوں نے بلوچ رہنما اور بی این پی کے سربراہ اختر مینگل سے الیکشن کے حوالے سے بات چیت کی۔ مذاکرات کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان رہنماﺅں نے بتایا کہ دونوں جماعتوں کے درمیان سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لئے کمیٹی بنا دی گئی ہے۔ اس صورتحال میں جب پیپلز پارٹی اور ق لیگ بلوچستان میں الیکشن کے میدان میں دفاعی پوزیشن پر چلی گئیں ہیں اور ان کی عوامی حمایت میں کمی کے ساتھ ساتھ ان کے رہنماﺅں کی دوسری جماعتوں میں شمولیت نے بھی ان کا ووٹ بنک متاثر کیا ہے۔ اس صورتحال میں اگر مسلم لیگ ن اور بی این پی، بی این اے، پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی، پاکستان جمہوری پارٹی مل کر الیکشن لڑتی ہیں تو بلوچ علاقوں میں ان جماعتوں کی پیش قدمی بہتر ہو سکتی ہے اور یہ اتحاد نمایاں کامیابی حاصل کر سکتا ہے کیونکہ متعدد بااثر بلوچ سردار اور سیاسی رہنما مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں اوریہ عرصہ دراز سے اپنے علاقوں سے کامیاب ہوتے چلے آ رہے ہی۔
اسی طرح دوسری طرف پشتون علاقوں میں محمود خان اچکزئی کی جماعت پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے بھی مسلم لیگ ن اور شریف برادران سے اچھے تعلقات ہیں اگر یہ ان علاقوں میں مل جُل کر کوئی مشترکہ سیٹ اپ لاتے ہیں تو پشتون علاقوں میں یہ اتحاد مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام کو ٹف ٹائم دے سکتا ہے کیونکہ ان علاقوں میں سخت گیر مذہبی خیالات رکھنے والے ووٹروں کی اکثریت ہے مگر اس کے ساتھ ہی قوم پرست ترقی پسند اور لبرل مزاج نوجوان پڑھے لکھے طبقے پختون خواہ ملی عومی پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے حامی بھی کثرت سے ہیں۔ جن کے درمیان ماضی میں بھی سخت مقابلے ہوئے۔ اب اگر مسلم لیگ ن بھی محمود خان اچکزئی سے یہاں اتحاد کر لیتی ہے تو اس کے بھی اچھے اثرات انتخابی نتائج پر پڑ سکتے ہیں کیونکہ ان علاقوں میں بھی بعض خان، نواب اور سردار ذاتی طور پر مضبوط سیاسی ساکھ رکھتے ہیں اور ذات برادری بھی ووٹ بنک پر اثر انداز ہوتی ہے۔ بلوچستان کے وہ بلوچ اور پٹھان علاقے جن میں پنجاب و سندھ کے آباد کار بھی بستے ہیں ان کے ووٹ بنک کی مو¿ثر طاقت بھی الیکشن میں بلوچستان کے سیاسی منظرنامے کو تبدیل کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے کیونکہ پرانے آباد کار جو 1950ءیا اس سے بھی پہلے کے بلوچستان میں ان کے ووٹ بھی کئی حلقوں میں نتائج پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
اب دیکھنا ہے کہ مسلم لیگ ن کس حکمت عملی سے بلوچستان میں اپنا ووٹ بنک بڑھاتی اور بلوچستان اسمبلی میں اپنا وجود منواتی ہے۔ اگر مسلم لیگ ن کامیاب حکمت عملی اپناتے ہوئے، محمود خان اچکزئی، اختر مینگل، ڈاکٹرعبدالمالک، حاصل بزنجو، طلال بگٹی جیسے مضبوط ساکھ رکھنے والی سیاسی رہنماﺅں کمی جماعتوں سے سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرتی ہے یا ان سے مل کر کوئی اتحاد بناتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ آنے والے الیکشن میں وہ سادہ اکثریت حاصل نہ کر سکے۔ کیونکہ بعد میں آزاد امیدوار بھی اسمبلی میں عددی اکثریت رکھنے والے اتحاد کے ساتھی بن جاتے ہیں۔
اس وقت مسلم لیگ ن کو دیگر بلوچ اور پٹھان سیاسی جماعتوں کی جو اخلاقی اور سیاسی حمایت حاصل ہے اس میں بڑا ہاتھ پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت کی گڈگورننس کا ہے اور بلوچستان کے باشندے بھی پنجاب میں ہونے والے ترقیاتی کاموں سے بہت متاثر ہیں اور شہباز شریف کی متحرک قیادت اور بروقت اقدامات سے خوش ہیں جس کی وجہ سے ان کے بقول صوبائی حکومت، انتظامیہ اور سرکاری ادارے بھی عوامی مسائل کے حل کے لیے بھرپور انداز میں کام کرتے ہیں اور اس سے عوام کو ریلیف ملتا ہے۔ اس کے برعکس بلوچستان میں سابقہ ارکان اسمبلی جو خیر سے سب کے سب وزیر، مشیر تھے، اربوں روپے کے فنڈز ہڑپ کر گئے اور انہوں نے پورے صوبے میں کوئی ترقیاتی کام نہیں کرایا، ان حالات کا موازنہ کرنے سے ان کو نواز شریف اور شہباز شریف کے عوام دوست اقدامات سے ہمدردی محسوس ہوتی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کے صوبے میں بھی کاش کوئی شہباز شریف جیسا وزیر اعلیٰ منتخب ہو جبکہ نواز شریف کی حب الوطنی اور شرافت سے بھی بہت سے لوگ متاثر ہیں۔ ان تمام باتوں کے باوجود صوبے میں پیپلز پارٹی کا وجود برقرار ہے اور الیکشن میں اس کا اثر بھی نظر آئے گا۔ سبی سے لے کر جیکب آباد تک کا بلوچ علاقہ جہاں کھوسو، جمالی، رند، چاکر، ڈومکی لاشاری و دیگر بلوچ قبائل آباد ہیں ان کے سندھ سے رابطے زیادہ ہیں اور وہ سندھی تمدن اور ثقافت کے زیادہ قریب ہیں یہاں سے پیپلز پارٹی پہلے بھی ووٹ حاصل کرتی رہی ہے اور اب بھی اس کا ووٹ بنک قائم ہے اگرچہ کچھ کمی ہوئی ہے۔ مہنگائی، لوڈشیڈنگ اور بیروزگاری کی وجہ سے مگر نظریاتی وابستگی برقرار ہے۔ جہاں سے اس کے امیدوار جیت سکتے ہیں۔
نواز شریف اور شہباز شریف کو چاہیے کہ وہ ان علاقوں میں بھی اپنا ووٹ بنک بہتر بنائیں اس کے لئے نہیں زیادہ تگ و دو نہیں کرنی پڑے گی کیونکہ اس علاقے میں جمالی خاندان کی بہت عزت ہے، جو تحریک پاکستان سے آج تک پاکستان کے مخلص رہے ہیں۔ اگر مسلم لیگ ن اس علاقے میں بھی موثر اور عوام دوست سیاسی شخصیت سے رابطہ کرے تو انہیں یہاں سے بھی اچھے ساتھی مل سکتے ہیں۔ نجانے کیوں مسلم لیگ (ن) والے اس اہم علاقے کو جہاں سندھ اور بلوچستان ملتے ہیں نظر انداز کئے ہوئے ہیں حالانکہ یہاں کے پسماندگی اور غربت کی چکی میں پسے عوام کو سب سے زیادہ توجہ اور ہمدردی کی ضرورت ہے۔ یہ کالم ابھی مکمل ہوا تھا کہ سردار ثنااللہ زہری جو مسلم لیگ (ن) کے سرگرم رہنما ہیں نے ڈیرہ مراد جمالی کے جمالی خاندان کے سرکردہ سیاستدان اور رہنما میر جان محمد جمال سے ملاقات کر کے ان کو مسلم لیگ ن میں شامل کر لیا ہے۔ یہ اس علاقے میں مسلم لیگ کی اہم پیشرفت ہے جس سے علاقے میں اسکی ساکھ مستحکم ہو گی۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...