بکواس کی بھی کوئی حد ہوتی ہے جب یہ حد پار کر لی جائے تو ہذیانی کی سی کیفیت ہوتی ہے ایسی ہی کیفیت کا شکار آج ہمارے کچھ سیاستدان وکلاءاور میڈیا کے احباب ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ملک اور قوم کو دو حصوں میں تقسیم کرکے ان کا نام ریاست اور آئین رکھ دیا ہے ان کا دعویٰ ہے کہ ”ریاست“ بچانا آئین کے تحفظ سے زیادہ ضروری ہے اس دلیل کی جھوٹی چادر اوڑھ کر چند کالم نویس اور اینکر حضرات بھی ٹی وی سکرینوں پر فوج کو مارشل لاءلگانے اور مشرف کی جان بخشی کرنے کی بات کرتے ہیں‘ دوسروں کے علاوہ ”سیاست نہیں ریاست بچا¶“ کی فلم کے پروڈیوسر اور کینیڈا کے وفادار ڈاکٹر طاہر القادری بھی ایسی ہی سوچ کی ایک زندہ مثال ہیں۔
ان لوگوں کی مثال اور وطن سے محبت اس دھوکے باز عورت کی سی ہے جس نے ایک دودھ پیتے بچے کی ماں ہونے کا جھوٹا دعویٰ کیا اور پھر اپنی صداقت ثابت کرنے کے لئے اصلی ماں کے سامنے بچے کو کاٹ کر دو حصوں میں ”منصفانہ“ تقسیم کی تجویز پر راضی ہو گئی۔
ایک ملک بھی وہ بچہ ہے جسے کاٹا نہیں جا سکتا‘ سائنس اور شیطانی دماغ جتنی بھی ترقی کر لیں ایک جسم میں دماغ اور دل کو کاٹ کر دو حصوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا‘ سورج روشنی سے ‘ پھول خوشبو سے اور ریاست آئین سے جدا نہیں ہو سکتے۔ مگر ان چند لوگوں کا کیا کریں جو چڑھتے سورج کے پجاری ہیں‘ ڈنڈے کے غلام اور ایسے مسلمان جو نعوذ بااﷲ اﷲ اور اس کی مقدس کتاب کا موازنہ کرنے سے بھی نہ چونکیں۔ اب ایسے لوگوں کی ذہنی پستی کا کیا علاج ہے جو محض اتنا نہیں سمجھتے کہ ریاست کے آئین بنانے میں تاخیر اپنی جگہ مگر ریاست کو بچانے کے بہانے بنے بنائے آئین کو پامال کرنا ملک سے غداری کے سوا کچھ نہیں‘ آئین ریاست کی وہ روح ہے جس کی پرواز کے بعد ریاستی وجود کے لئے کفن دفن کا بندوبست کیا جاتا ہے مگر کیا کہنے ہذیان زدہ ان لوگوں کے جو شرعی انہونی کو بھی ہونی بنا کر مفتی کو کہتے ہیں ‘ ”آپ تو کہتے تھے نہیں ہو سکتا ہم نے کر دیا ہے“ ۔
یہ وہ لوگ ہیں جو پاکستان کے ماضی بے آئین کو ریاست اور آئین کی تفریق کو بطور ثبوت پیش کرتے ہیں۔ مگر کچھ ایسے بھی ہیں جو ریاست کے وجود اور برتری کو دلیل بنا کر آئین پاکستان کومحض اس لئے پامال کرنے کی بات کرتے ہیں کہ چند جاہل سیاست دان یا حکمران غلط بات کر دیں۔ آخر ان چند سیاستدانوں کی سزا پورے ملک اور قوم کو کیوں؟ یہ آئین کسی سیاست دان یا فوجی آمر کے باپ کی جاگیر نہیں کہ اس پر قبضہ کر کے اس سے بدلہ لیا جائے۔
نہ جانے یہ لوگ‘ سیاست دان‘ وکلائ‘ اینکر پرسن حضرات اور چند ریٹائرڈ یا حاضر سروس فوجی افسران کون سے تعلیمی اداروں میں پڑھے ہیں کہ آج ریاست بچا¶ تحریک کے نام پر آئین اور قانون کی پامالی کے لئے دعوت گناہ دیتے ہیں۔
آئین اور قانون کی بالادستی کا سبق پڑھانے والے تمام تعلیمی اداروں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں کو ایسے لوگوں کی ڈگریاں منسوخ کر دینی چاہئیں۔ دعوت گناہ دینے والے یہ لوگ اپنے استادوں اور تعلیمی اداروں کی عزت پر ایک بدنما داغ ہیں۔ ان سے کوئی پوچھے کہ اگر آئین کی کتاب کی کوئی وقعت نہیں تو پھر اپنے تعلیمی زمانے میں دھوبی کے گدھے کی طرح کتابوں کا بوجھ کیوں اٹھاتے رہے ہو۔ کیا یہ سبق بھول گئے کہ آئین کے بغیر ریاستیں مقبوضہ علاقے کہلاتی ہیں یا پھر خانہ جنگی کا شکار ممالک۔
افسوس تو ان سینئر ترین صحافی حضرات پر بھی ہوتا ہے جن کا نام کربلا کی قربانی یاد دلاتا ہے اور حق اور سچ کی خاطر جان ”نثار“ کرنے کا تاثر دیتا ہے۔ یہ لوگ بھی چند قانون دانوں کے ساتھ مل کر اپنی دھرتی ماں کی عزت بچانے کے نام پر نظریہ ضرورت کی قینچی سے اس پر زیب تن آئین کے لباس کو تار تار کرنے واسطے کھلے عام دعوت گناہ دیتے ہیں۔ یہ دھرتی کے کیسے بیٹے ہیں جو اپنی ساری زندگی قانون اور ضابطوں کے مطابق اپنی تعلیمی ڈگریاں‘ جائیداد کی دستاویزات اور نکاح نامے سنبھال کر رکھتے رہے مگر ان تمام ضابطوں کی ماں آئین کے سامنے ریاست کو باپ بنا کر پیش کر دیا۔ ریاست اور آئین میں تفریق سے متعلق ان لوگوں کی دلیل ویسے ہی ہے کہ جسے کوئی بیٹا کہے کہ میں ماں کے نہیں باپ کے ”بطن“ سے پیدا ہوا ہوں۔ یہ وہ صحافی حضرات ہیں جن کو یہ غرض نہیں کہ وردی کا رنگ کیا ہے۔ یہ نہیں جانتے کہ فوج تو فوج ہوتی ہے۔ جن قوموں پر ان کی اپنی فوج حکومت کر سکتی ہے تو ان قوموں پر کوئی بھی فوج حکومت کر سکتی ہے۔
یہ صحافی حضرات تو بس غیر مسلح جمہوریت کو للکار کر ہی اپنی مردانگی کا ثبوت دے سکتے ہیں۔ ”چیر دیاں گے‘ پھاڑ دیاں گے“ یہ وہ صحافی مولا جٹ ہیں جو قلم کے گنڈاسے اور زبان کے سوٹے لہراتے وقت آئین کی شق 19 کا بڑے فخر سے حوالہ دیتے ہیں اور ستم ظریفی یہ کہ آزادی رائے کہ اس بنیادی آئینی حق کا استعمال کرتے ہوئے اپنی دھرتی ماں کے آئین کی عزت کو پامال کرنے کے لئے دعوت عام دیتے ہیں۔ اگر اس گونگے آئین کی زبان ہوتی تو یقیناً وہ پکار کر کہتا....
جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھی دھڑکنیں
ان کو زباں ملی تو ہم ہی پر برس پڑے
”نظریہ ذاتی ضرورت“ ....(حصہ اول)
Apr 14, 2014