آئین، آئینہ، احسن اقبال اور اگلی باری

سبھی خوبصورتی اور سنجیدگی سے آئین کی باتیں کرتے ہیں مگر اپنے اپنے مفادات اور حصول کیلئے۔ آئین میں اگر ایسے جھانکا جائے جس طرح آئینہ دیکھتے ہیں، تو ہم سب کو اپنے ایک چہرے پر کئی کئی چہرے نظر آئیں گے۔ آئین واضح اور قابل عمل ہے۔ اس میں سے دریافتوں کی گنجائش نہیں لیکن ہم شبانہ روز من پسند دریافتوں کے چکر میں ہیں جہاں آئین میں ترامیم پارلیمانی حُسن اور وقتی ضرورتوں سے ہم آہنگ ہونے والی بات ہے وہاں آئین کی روح سے قوم کی روح اور روحانی معاملات کو ہم آہنگ کرنا اور رکھنا بھی واجب اور فرض ہے --- فرض!
دو دن قبل تین وفاقی وزرا¿ خواجہ آصف ، سعد رفیق اور بعد ازاں پروفیسر احسن اقبال کے بیانات اور رویے کی باتیں خبر کی دنیا اور عوام کیلئے بحث و تمحیص کا باعث بنی رہیں، یہ وہ باتیں تھیں جو آرمی چیف کے ”معروف“ بیان کے بعد منظرعام پر آئیں۔ آرمی چیف کے بیان میں بس بات اتنی ہی تھی کہ فوج کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے بلاوجہ اس کو تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے۔ ہفتہ 11 اپریل 2014ء(دو دن قبل) احسن اقبال نے یہ بیان دیا کہ ”مشرف کے مقدمہ کا فوج سے تعلق نہیں، تحفظِ پاکستان بل صرف دو سال کیلئے ہے۔ مشرف کے وکلا سازش کر رہے ہیں اور آرمی چیف کے بیان کو کچھ قوتوں نے ہَوا دینے کی کوشش کی ہے۔“ میڈیا سے یہ بات کرنے کے ایک گھنٹہ بعد میری اُن سے ملاقات ہوئی۔ فیڈرل انسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور کے ڈاکٹر آف فزیو تھراپی کے طلبا و طالبات سے اُن کا خطاب تھا۔ اس خطاب میں تو انہوں نے نوجوانوں کو بہتر مستقبل کیلئے خوب محنت کی تلقین کی اور میاں نواز شریف و میاں شہباز شریف کے تعلیمی وژن اور بالخصوص میڈیکل تعلیم پر خصوصی توجہ کے ارادوں کا تذکرہ کیا۔ پھر وفاقی وزیر کے لب و لہجہ میں ایک ”عجیب“ خواہش اور ضرورت کا بھی رنگ نمایاں تھا جب انہوں نے یہ کہا کہ اقوام مختصر دورانیہ میں ترقی نہیں کرتیں۔ بھارت کی مثال کے علاوہ دیگر ممالک کی بھی مثالیں دیں کہ اگر کسی حکومت کو آٹھ دس سال اکٹھے مل جائیں تو تب جا کر پالیسیاں پروان چڑھتی ہیں اور ترقی کے زینے چڑھے جاتے ہیں۔ یقینا بھارت میں کانگرس اور بی جے پی کو مسلسل موقع ملا، کسی نے کہا ہے کہ پاکستان میں مسلم لیگ (ن) کو یہ موقع نہیں مل سکتا؟ سیانے کہتے ہیں ”جو دِکھتا ہے وہی بکتا ہے!“ اچھا مال دکھائیں، اچھے کام کریں، ماضی کی حکومت کی طرح دو دو دفعہ غلطی نہ کریں، نہ حکومت تڑوائیں۔ ایسا ہی پی پی پی نے دو دفعہ کیا تھا وہ اپنی مدت پوری نہ کر سکی، تیسری دفعہ پی پی پی نے بچ بچاﺅ سے کام لیا اور اپنا اپنا آئینی حکومتی دور پورا کیا۔ اب لازم ہے کہ مسلم لیگ (ن) بھی مشرف کو مشرف کی جگہ رکھے اور فوج کو فوج ہی سمجھے، ایسی چیزوں کو ہَوا نہ دے جس سے حالیہ دور ہی پورا نہ ہو، اگلا دور ،تو اگلا دور ہے۔
بہرحال طلبا و طالبات سے میٹھی میٹھی تقریر کے دوران ایک گھنٹہ پہلے والی کڑواہٹ کا کچھ اثر باقی تھا۔ فرمایا کہ ”کچھ میڈیا کے عام لوگ اور کچھ اینکر پرسن ایسے ہیں جن کی زبان پر بلاوجہ خارش ہوتی رہتی ہے۔“ اس موقع پر ڈاکٹر اکرم چودھری وی سی سرگودہا یونیورسٹی نے بھی شریف برادران کی پالیسیوں کی تعریف کی۔ پھر اس موقع پر راقم نے بھی یہ ضرور کہا کہ احسن صاحب محنتی وزیر ہیں بلکہ حکومت کے اڑھائی، ساڑھے تین یا ساڑھے چار اچھے وزرا¿ میں سے ایک سالم اچھے وزیر ہیں ان کی پروفیشنل اپروچ سے ان کے اندر کا انجینئر، ماہر تعلیم، پروفیسر، آپا نثار فاطمہ کا بیٹا اور محب وطن ہونے کی پریکٹیکل دلیل واضح جھلک رکھتی ہے سو میں انہیں ن لیگی، سیاسی یا صحافی اور حکمران و اشرافیہ ہونے کے حوالے سے نہیں دیکھتا بلکہ ذمہ دار پاکستانی ہونے کی حیثیت سے دیکھتا ہوں، گویا میرے سمیت یہ طلبہ و طالبات، نوجوان اور پاکستان بھی ان سے امیدیں وابستہ رکھے ہوئے ہیں۔ ہاں میں ان سے یہ بھی توقع رکھتا ہوں کہ خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق اور عابد شیر علی جیسے یہ ”خواجگان“ کبھی نہ بنیں، ان کے بیانوں اور اعلانوں سے رانا ثنااللہ جیسی آگ نہ نکلے تو بہتر ہے۔ یہ نستعلیق ہی اچھے لگتے ہیں۔ ان کی وزارت جس کا تعلق پلاننگ، ڈویلپمنٹ اور ریفارمز سے ہے پھر یہ پلاننگ کمشن کے ڈپٹی چیئرمین بھی ہیں (اس کے چیئرمین وزیراعظم ہوتے ہیں)۔ کئی سیاستدان ایسے ہوتے ہیں جن کی بھڑکیں ہَوا میں چلی جاتی ہیں اور کچھ کی دل میں اُترتی ہیں۔ دل میں اُترنے والی باتوں میں کسی میں دلربائی ہوتی ہے اور کسی میں تلخی۔ راقم، آکسفورڈ اور ہارورڈ یونیورسٹیوں سے فیض یاب شخصیت سے بناﺅ ہی بناﺅ کا تصور رکھتا ہے۔ انہی سے نہیں احسن اقبال کا تعلق وارٹن سکول آف یونیورسٹی آف پینسولینیا سے بھی رہا پھر انہوں نے عملی سیاست کا آغاز یو ای ٹی جیسی معروف اور قدیم انجینئرنگ یونیورسٹی سے کیا۔ لہٰذا انہیں حکومتی و سیاسی انجینئرنگ سے معاملات کو بہتر ہی بنانا ہو گا یہی توقع ان سے میاں نواز شریف بھی رکھتے ہیں۔ یہ اپنی پارٹی اور حکومت کا چونکہ اثاثہ ہیں اور ہم بھی انہیں محب وطن سمجھتے ہیں تبھی یہ مشورہ دیتے ہیں کہ جلتی پر تیل چھڑکنے سے اجتناب کیا جائے۔ کم از کم آپ یہ یاد رکھیں مسلم لیگ (ن) کی حکومت پہلے بھی دو دفعہ اپنے بھاری بھرکم مینڈیٹ کے وزن ہی سے خود گری اور پاش پاش ہوئی۔ مشرف نے غلط کیا تھا، سو فیصد غلط کیا تھا، اُسے آئین اور قانون کا سامنا کرنا چاہئے۔ عدالت جو کرے بس، او کے! حکومت کے سنجیدہ وزراءکو اس بحث میں نہیں پڑنا چاہئے بے شک میڈیا اور اپوزیشن چھیڑ خانی کرے۔ جہاں تک تحفظِ پاکستان بل کا تعلق ہے اس میں حکومت کو اپوزیشن سے مل بیٹھ کر بھرپور بات کرنی چاہئے تھی۔ حکومت کو یہ تو معلوم ہو گا کہ ایوان میں کوئی اپوزیشن بھی ہے اور ایوان بالا میں پی پی پی کی اکثریت بھی۔ تحفظ پاکستان بل کے تحت کسی کو بھی 90 دن کیلئے تفتیش کیلئے اُٹھا لینا کیا واقعی ”تحفظِ پاکستانی“ بھی ہے؟ بات چل رہی تھی احسن اقبال کے طلبا و طالبات سے خطاب کی، بہرحال انہوں نے نوجوانوں اور طلبا و طالبات کے ساتھ وزیر کے بجائے پروفیسر کی حیثیت سے زیادہ باتیں کیں، ان کی تعلیم دوستی ہی کو دیکھ کر ہم کہا کرتے ہیں کہ وفاق کی تعلیم و تربیت بھی انہیں ہی سونپ دیں یا پھر جعفر اقبال جونیئر تعلیم میں خصوصی دلچسپی رکھتا ہے بلیغ الرحمن صاحب کے بس کا یہ روگ نہیں۔ طلبہ کے بعد فیڈرل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز میں احسن اقبال کی ایک خصوصی نشست دانشوروں اور سنیئر کالم نگاروں اور ایڈیٹرز سے بھی ہوئی۔ وی سی سرگودہا یونیورسٹی ڈاکٹر اکرم چوہدری، ڈاکٹر الیاس طارق (ڈائریکٹر میانوالی کیمپس سرگودہا یونیورسٹی) اور امیر العظیم بھی اس بزم میں جلوہ گر تھے۔ گفت و شنید کے رنگ و مہک یہی رہے کہ پارلیمنٹ کے ادارہ سے فوج اور عدلیہ تک سبھی کو حب الوطنی کے ساتھ اپنی اپنی حدود اور وسعتوں ہی میں رہنا چاہئے، نہ سیاستدان گرگٹ کی طرح رنگ بدلیں اور نہ مضبوط اداروں کے مضبوط سربراہان آپے سے باہر ہوں۔ اگر تحفظِ پاکستان مقدم ہے تو پھر پہلے پاکستان کو محفوظ بنانا ہو گا۔ سارا آئین ہی قابلِ عمل ہے پھر آرٹیکل 6 ہو یا آئین کی دفعات 38، 62 اور 63۔ فوج، عدلیہ اور حکومت آئین کے آئینے میں دیکھیں تو ہم سب سنگ سنگ اور ہم رنگ ہو جائیں گے۔ ہاں جاتے جاتے یہ کہہ دوں کہ سب سیاستدان اب نوجوانوں سے استفادہ چاہتے ہیں اور انہیں اپنی امیدوں کا محور و مرکز بنا رہے ہیں۔ نوجوانو! مبارک ہو آپ کی اہمیت کا احساس ہو گیا لیکن براہِ مہربانی آپ بھی آئین پڑھ لیں اور سمجھ لیں ورنہ گاڑی آگے نہیں بڑھے گی۔ جی احسن اقبال آپ بھی آئین اور تحفظ لے کر چلیں تب اگلی باری ممکن ہے!

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...