محمد عمر فاروقی
پاک بھارت تعلقات اور باہمی تجارت کے فروغ کے حوالے سے جوش و خروش کے مظاہر ایک دوسرے سے بڑھ کر نہیں تو ایک جیسے ضرور ہیں۔ سرحد کے آرپار دونوں اطراف کی کاروباری برادریاں اور تجارتی حلقے چاہتے ہیں کہ جس قدر ممکن ہو تجارتی عمل کا آغاز ہو جانا چاہئے۔ اس کیلئے خطے میں امن و امان، سلامتی اور عوام کی خوشحالی کے حوالے سے ا ستدلالی ‘ جذباتی‘ منفی اور مثبت ہر طرح کے موقف سامنے لا ئے جا ر ہے ہیں ۔
دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے آغاز کے حوالے سے پاکستان کا ایک روایتی اور قومی موقف رہا ہے کہ ایک دشمن ملک سے بنیادی تنازعات کے پائیدار حل کے بغیر تعلقات کیسے پیدا ہو سکتے ہیں اس موقف کی شد و مد سے حمایت کرنے والوں کے نزدیک مجوزہ تجارتی عمل کی شروعات ڈھونگ ہے۔ ان کے مطابق ماضی میں دونوں ملکوں میںہونیوالی جنگوں‘ مشرقی حصے کی علیحدگی‘ کشمیری عوام کی حق خودارادیت سے محرومی یا پھر دریائوں کا پانی روک کر پاکستان کو بنجر بنائے جانے جیسے تنازعات کی موجودگی میں بھارت کے ساتھ تجارتی عمل کا رجحان نقصان دہ ہی نہیں وطن عزیز کے لئے خطرناک بھی ہے۔ مذکورہ روایتی موقف اپنی جگہ درست ہے اور اسے کسی صورت بلاجواز نہیں کہا جا سکتا تاہم اس کے ساتھ ساتھ پاک بھارت تجارت کے فروغ کے درپردہ مضمرات اور خدشات کے ایک سے زیادہ دیگر موضوعات بھی بحث طلب ہیں جو ہماری قومی ترجیحات کا حصہ نہیں بن سکے۔ اس حوالے سے استدلالی فکر کے حامل روشن خیال حلقے پاک بھارت تجارت کے مضمرات میں دونوں ملکوں کی خواہشات اور جوش و خروش کے پیچھے کاروباری اور تجارتی حر کیات کے عمل کو ایک دوسرے سے متضاد اور متصادم قرار دیتے ہیں۔ جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ اس ایشوکو دانشورانہ بحث و تمحیص کا حصہ بننا چاہئے۔
پاک بھارت تجارت کے مضمرات کا جائزہ لیتے ہوئے ان حلقوں کا مؤقف ہے کہ دو نوں ملکوں کی باہمی تجارت کے فروغ میں دلچسپی کے زیر اثر تجارتی اور کاروباری مفادات میں مسابقت کے معیارات یکساں نہیں ہیں اور نہ ہی پاک بھارت سرحدوں کے آرپار دیکھے جانے والے جذبات کے پیچھے اقتصادی اور تجارتی رحجان میں یکسانیت ہے۔ دونوں کے پیچھے کاروباری اور تجارتی حرکیات کا عمل مختلف ہے ۔ بھارت کی جانب سے تجارتی رحجانات اور جوش و خروش کا ہوش مندی سے مشاہدہ کیا جائے تو یہ امر سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہونی چاہئے کہ بھارت اپنے ہاں صنعتی اور پیداواری عمل میں ترقی کر رہا ہے جس کی قومی اقتصادیات کے پھیلائوکے اپنے تقاضے ہیں ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے صنعتی ارتقا ء اور پیداواری عمل کے جاری و ساری رہنے کیلئے اپنی برآمدی مارکیٹ میں اضافہ کرے۔ جبکہ ہمارے قومی رحجانات میں وطن عزیز کو صارف سٹیٹ بنایا جا رہا ہے۔ ٹریڈ کے نام پر کاروباری اور تجارتی حلقے کنزیومر کلچر کو فروغ د ے رہے ہیں ۔ پاکستان کی مارکیٹیں پہلے ہی درآمدی مال سے بھری ہو ئی ہیں۔ہمارے کاروباری اور تجارتی حلقوں کو اس امر سے کوئی سروکار نہیں کہ ان کے کاروباری اور تجارتی اضافے کیلئے درآمدات کی کون سی کھڑکی استعمال ہو رہی ہے۔ وہ بلاامتیاز اپنی دکان پر سامان بیچ کر ہر قیمت پر اپنے منافع میں بڑے سے بڑا اضافہ چاہتے ہیں۔ پاکستان پہلے ہی چین کے مال کی فروخت کیلئے ایک بڑا کنزیومر زون ہے۔ان حالات میں درآمدات اور برآمدات کا توازن برقرار رکھنا بجائے خود ایک سوال بن چکا ہے ۔ جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تجارتی اور کاروباری طبقے طاقتور ہو کر نہ صرف ریاستی اقتدار کی جنگ میں شراکت دار بن چکے ہیں بلکہ آگے بڑھ کر قومی اور سیاسی فیصلوں میں اپنے کاروباری مفادات کے زیر اثر ترجیحات کا تعین کر رہے ہیں۔ موجودہ حالات میں دونوں ممالک میں ہونے والی تجارت کی شکل صنعتی مما لک کی غیر صنعتی ممالک کے مابین ہونے والی تجارت کی ہے۔ جس میں صنعتی اور پیداواری کلچر کے حوالے سے پسماندگی کا شکار ایسے تمام ممالک جن کے حالات پاکستان جیسے ہیں اقتصادی میدان میں شکست کھاجاتے ہیں۔ ایسے ممالک اکثر اس صلاحیت سے محروم ہو جاتے ہیں جس سے اپنے قومی وسائل سے فائدہ اٹھا سکیں ، قومی اثاثوں کا تحفظ کر سکیںاور خارجی عوامل کی چھینا جھپٹی سے خود کوبچا سکیں۔ تخلیقی اور پیداوار ی عمل کی صلاحیتوں سے عاری ریاست کی مشکلات میں اس وقت اضافہ ہو جاتا ہے جب درآمدات اور برآمدات کے عدم توازن کی بے راہ روی کے ہاتھوں تجارتی ادائیگیوں کا عدم توازن اسے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے اداروں کی ڈکٹیشن لینے پر مجبور کر دیتا ہے۔ جو عفریت بن کر ریا ست کو اس کے اپنے قومی اثاثوں کے بچائو کے حق سے بھی محروم کردیتا ہے۔ ہماری معیشت کی بڑی کمزوری قومی پالیسیوں اور اقتصادی حوالے سے غیر ترجیحی رویہ یا حسن سلوک ہے۔ ایک صنعتی اور پیداواری صلاحیت کی حامل ریاست کا تصور کبھی بھی ہماری پہلی ترجیح نہیں رہا۔ پاک بھارت تجارت کے حوالے سے دونوں ممالک میں سرکاری سطح پر پائے جانے والے رحجانات اور مستقبل قریب میں سرحد پار سے آنے والی اشیاء کے سیلاب سے ہونے والی ہماری اقتصادی پسماندگی کو خطرات لاحق ہیں۔ پاکستان کو پیداوار ی کلچر کی حامل ریاست بنانے کیلئے ضروری ہے کہ ساری توجہ صنعتی عمل کو تیز کرنے کی جانب مرکوز کر دی جائے۔ ورنہ پاک بھارت تجارت کے اثرات مستقبل میں ہماری عوامی نفسیات کیلئے بھی چیلنج ہو ں گے ۔ اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کیلئے تخلیقی اور پیداواری عمل کی صلاحیتوں کی حامل سوسائٹی کو قومی سطح پر فروغ د ینے اور رجحان سازکلچر پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے ہمیں معاشی ڈنگ ٹپائو رویہ ترک کرنا ہو گا ۔ ہم عصر قوموں اور ہم عصر سماجوں کے شعوری نصاب اور قومی نفسیات میں یہ بات شامل ہے کہ تجارت ایک ایسی فیصلہ سازعالمی قوت ہے جو عسکری فتوحات سے کہیں بڑھ چڑھ کر ہے ۔ لہذااس بارے میں دو رائے نہیں اور نہ ہی ہونی چاہئیں کہ تجارت معیشت کا ایک ایسا لازمی عمل ہے جس کے توازن کے بغیر دنیا کا کوئی سماج زندہ رہ سکتا نہ پنپ سکتا ہے۔