ان دنوں جب اور کچھ کرنے کیلئے نہیں رہا‘ تو مجبوراً ہمارا وقت زیادہ تر ٹی وی کے آگے ہی گزرتا ہے۔ اور جب بھی ٹی وی کا منہ کھولتے ہیں۔ ہمارے منہ سے بے ساختہ یہی نکلتا ہے۔ یا اللہ خیر۔ کہ آجکل بلکہ ایک عرصہ سے ہمارے ہاں خیر کی خبر یا خبریں سننے کو بہت کم ملتی ہیں۔ ریموٹ ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے اور ہم برابر چینل پہ چینل بدلتے چلے جاتے ہیں کہ کہیں تو خیر کی خبر ملے۔ مگر سب بے سود ایسے لگتا ہے‘ جیسے ہر طرف ایک آگ سی لگی ہوئی ہے۔ ملک بھر میں امن ہے نہ امان‘ سکون ہے نہ اطمینان اور قانون ہے نہ کوئی حکومت‘ فقط جس کی لاٹھی اسکی بھینس جیسے قانون کی حکمرانی ہے۔ ہم نے ابھی ابھی ٹی وی کھولا ہے۔ تو یہ خبر باتصویر‘ تفصیل کے ساتھ سنائی اور دکھائی جا رہی جس میں گوجرانوالہ کی ایک عدالت کے عین سامنے ایک ایم پی اے بہادر اپنے بیٹوں‘ بھتیجوں اور دیگر رفقا کے ایک جتھے کے ساتھ پولیس کی ایلیٹ فورس کے تین اہلکاروں کی خوب دھنائی کر رہے ہیں۔ ان اہلکاروں کا ’’قصور‘‘ یہ بتایا جا رہ اہے کہ انہوں نے ایم پی اے صاحب اور انکے ساتھیوں کو عدالت کی سکیورٹی کے پیش نظر وہاں سے ہٹ جانے کی استدعا کی تھی کہ جب سے اسلام آباد کی ایک عدالت میں دہشت گردی کا ایک اندوہناک واقعہ پیش آیا ہے۔ احتیاط کے طور پر ہر عدالت کی حفاظت کیلئے ایسا کرنا ان اہلکاروں کے فرائض میں شامل کیا گیا ہے لیکن یہاں قانون بنانے والوں کو قانون کے ان رکھوالوں کا یہ فعل ناگوار گزرا یہ تماشا ہمارے ہاں صرف آج ہی نہیں دیکھا گیا ہمارے معاشرے کا یہ معمول بن چکا ہے کہ گویا …ع
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
اور ایسا کچھ ہمیں جمہوری حکومتوں میں دیکھنے کو ملتا ہے کہ ہمارے ممبران اسمبلی جو ملک میں قانون سازی کیلئے منتخب ہوتے ہیں۔ اپنے آپ کو ملک کے ہر قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں اور ایسے کسی سرکاری ادارے یا اس کے اہلکار کو ہرگز خاطر میں نہیں لاتے اور ضرورت پڑے تو اسکی ٹھکائی بھی کر دیتے ہیں۔ تو اس لئے یہ وجہ بھی بنتی ہے کہ ہمارے ہاں عوام جلد ایسی ’’جمہوریت‘‘ سے بدظن ہو جاتے ہیں۔برطانیہ اور امریکہ جیسے ممالک میں جہاں جمہوریتیں اپنے اپنے انداز میں مضبوط اور مستحکم ہیں وہاں سے اکثر ہمیں ایسی خبریں بڑھنے‘ سننے کو ملتی ہیں۔ جن میں بتایا جاتا ہے کہ کہ فلاں وزیراعظم برطانیہ یا صدر امریکہ کا کوئی بیٹا یا بیٹا ٹریفک کی خلاف ورزی یا ایسے کسی معمولی جرم کی پاداش میں بھی پابند سلاسل کر دیئے جاتے ہیں اور انہیں اسکی سزا بھگتنی پڑتی ہے لیکن ہمارے ہاں ایسا سوچنا بھی حکومت اور حکمرانوں کی توہین سمجھی جاتی ہے یہاں جو حکمران ہے۔ وہ بادشاہ عالم پناہ ہے جس کے سامنے قانون بے بس اور بے دست و پا ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اس بھری عدالت میں جس شخص نے یہ ہنگامہ برپا کیا اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا ان واشگاف ٹی وی کی تصاویر کی شہادتوں کے پیش نظر اسے فوراً بمعہ ساتھیوں حراست میں لیا جاتا اور ضروری کاغذی کارروائی کرنے کے بعد اور عدالت میں لاکر انہیں قرار واقعی سزا دی جاتی لیکن افسوس ایسا ہو گا نہیں۔ بلکہ وہی ہو گا جو ایسے میں ہوتا آیا ہے اس مد بھیڑ میں ان ملازمین کی وردیاں تو تار تار ہوئیں‘ اب ان کی پیٹیاں بچ جائیں یعنی ملازمتیں برقرار رہیں تو بڑی بات ہو گی۔ تو ایسے میں اچھی بات یہ ہوئی کہ اس کے ساتھ ہی ٹی وی پر یہ خبر بھی آئی کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے اس واقعہ کا نوٹس لے لیا ہے اور اعلیٰ حکام سے اسکی رپورٹ طلب کر لی ہے اور اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایسے معاملات میں میاں شہباز شریف بطور وزیراعلیٰ پنجاب انصاف پسند اور سخت گیر واقع ہوئے ہیں اب دیکھئے کیا کرتے یا کر پاتے ہیں۔یہاں دکھ کی بات یہ بھی ہے کہ ہمارے قوانین اور ادارے اس قدر بے بس اور مفلوج ہو چکے ہیں کہ جب تک میاں شہباز شریف جائے واردات پر نہ پہنچیں یا واقعہ کا نوٹس نہ لیں‘ ہمارا قانون اور ادارے حرکت میں بھی نہیں آتے۔چہ خوب اگر ایسا کرنا وزیراعلیٰ ہی کی ذمہ داری ہے تو ہم سوچتے ہیں وہ کہاں کہاں تک پہنچ جائیں گے اور ایسی وارداتیں اگر جمہوریت ہی کی دین ہیں تو مجبوراً کہنا پڑتا ہے… ع
ہم باز آئے اس محبت سے اٹھا لو پاندان اپنا
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
Apr 14, 2014