یمن کی خانہ جنگی اور سعودی عرب کو حوثی انتہا پسندوں سے درپیش قومی سلامتی کے خطرات کے تناظر میں پاکستانی پارلیمنٹ نے حتمی فیصلہ دے دیا ہے کہ پاکستان اس تنازعے میں غیر جانبداری برقرار رکھتے ہوئے اقوام متحدہ اور او آئی سی میں سرگرم سفارتی کردار ادا کرے۔ یہ قوم کے اجتماعی شعور اور عوامی پالیسی لائن کی واضح اور حتمی عکاسی ہے لیکن چند روز سے جمعیت العلمائے اسلام (ف)، جمعیت اہلحدیث، جماعت اہلحدیث پاکستان، اہل سنت بریلوی کے بڑے علمائ، جماعت اسلامی کے کچھ لیڈر، جماعت الدعوۃ کے کرتا دھرتا اور دیگر علماء و مفتی حضرات اپنے احتجاجی مظاہروں، ریلیوں، جلسوں، کانفرنسوں میں اپنی الگ الگ ’’ڈفلی‘‘ بجا کر قومی فیصلے کا مذاق اڑا رہے ہیں جو قابل مذمت ہے۔ اس طرح قومی موقف سے انحراف کرکے سعودی حکمرانوں سے ’’مفادات‘‘ کا سلسلہ برقرار رکھنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور قومی یکجہتی و اتحاد کو منتشر کیا جا رہا ہے۔ قومی جذبات کی مظہر یمن سعودی عرب پالیسی سازی کی گائیڈ لائن کو تبدیل کرنے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے جو قومی سلامتی کے تقاضوں کیخلاف ہے کیونکہ اگر یمن کے مسئلے پر سعودی حکومت اور حکمرانوں کی مرضی کیمطابق شدید دبائو میں نواز حکومت لڑاکاافواج بھجوانے کا غلط فیصلہ کرتی ہے تو پاکستان کی عالمی، علاقائی، اندرونی سلامتی کو کئی خطرات درپیش ہونگے جن کی نشاندہی چند باہمت ریٹائرڈ جرنیلوں نے کر دی ہے۔ دینی طبقات اور قیادتیں غلط حکمت عملی اپنا رہی ہیںدرست راستہ صرف اور صرف ایران، امارات، ترکی، سعودیہ، خلیج تعاون کونسل کے ذریعے بے امنی کو یمن سے ختم کرنے کا ہے۔ ڈائیلاگ، زمینی حقائق کا ادراک، کچھ لو اور کچھ دو کا فارمولا، امت کا وسیع تر مفاد، پاکستان کی سلامتی و دفاع کیخلاف عالمی و علاقائی سازشوں کے تناظر میں سعودی حکومت کو پاکستان اور افواج پاکستان کے متعدد اندرونی سلامتی کے اپریشنوں کے پیش نظر تمام لڑاکا افواج کے یونٹس سعودیہ بھجوانے کا روز بروز بڑھتا مطالبہ نہیں کرنا چاہئے۔ اب تک خلیج تعاون کونسل اور ہمسایہ عرب ممالک نے یمن کے باغیوں پر پے در پے کئی ہوائی جنگی جہازوں کے حملے کئے ہیں اور مطلوبہ نتائج حاصل کئے ہیں۔ اماراتی ممالک کی مشترکہ دفاعی صلاحیت (امارات، دبئی، قطر، بحرین، مسقط، اومان وغیرہ) یقیناً اس قابل ہے کہ وہ اپنی زمینی افواج کو سعودیہ یمن بارڈر پر دفاعی لائن بنا کر سعودیہ اور حکمرانوں کو تحفظ فراہم کریں۔ خود کم از کم 30 سالوں میں سعودی فضائی، زمینی افواج ہر طرح سے اس قابل ہیں کہ وہ کمانڈوز، ٹینک، توپ، لڑاکا بمباروں، طیاروں، میزائل، مارٹر حملوں سے حوثی قبائل کا تدارک کریں۔ پاکستانی فضائیہ اور فوج نے سعودیوں کو 30سال میں پیشہ ورانہ طور پر بہت کچھ تربیت، جنگی منصوبہ سازی سکھا دی ہے۔ یمن کے باغیوں کی سعودی حدود میں پیش قدمی اتنی آسان بھی نہیں جتنا شور مچا دیا گیا ہے۔ حوثی باغیوں کی جنگی صلاحیت بہرحال محدود ہے اور عرب امارات اور سعودیہ ان کا موثر ’’توڑ‘‘ کر سکتے ہیں اسلئے اماراتی وزیر مملکت انور محمد قرقاش کی پاکستان کے غیر جانبدار رہنے پر یا متضاد، مبہم موقف رکھنے پر بھاری قیمت چکانے کی دھمکی غیر مہذب، سفارتی آداب کے منافی، امارات پاکستان معاشی، دفاعی، تجارتی برادرانہ تعلقات کیخلاف ہے۔ یہ قابل مذمت ہے۔ حکومت پاکستان کے مشیر خارجہ، معاون خصوصی برائے خارجہ امور اور دفتر خارجہ نے فوری ردعمل سے گریز کیا ہے تاکہ امارات پاکستان تعلقات میں بڑا رخنہ نہ پڑے البتہ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں نے اماراتی وزیر مملکت کی دھمکی پر دلیری سے ٹھوس جواب دے دیا ہے کہ یہ پاکستانی قوم کی توہین کے مترادف اور ناقابل قبول ہے مزید یہ کہ سفارتی آداب کیخلاف اور غیرت مند پاکستانی قوم کیلئے ناقابل قبول ہے جسکی ستائش ہونی چاہئے لیکن خارجہ امور پر درجہ بہ درجہ ’’خاموشی‘‘ کچھ اور اشارے دے رہی ہے شاید وسیع مارکیٹ، لاکھوں پاکستانیوں کے روزگار، قرضوں، تیل کے جہازوں، بھارت کی مین پاور کیلئے ’’میدان‘‘ کھلا چھوڑنے، زرمبادلہ کے ذخائر وغیرہ وغیرہ کے ’’مسائل‘‘ بیک ڈور ڈپلومیسی کا تقاضہ کرتے ہیں بہرحال میاں صاحب اور حکومت پاکستان کے علاوہ سینئرفوجی کمانڈرز کا بھی سخت امتحان ہے کہ وہ قومی مفادات کا تحفظ کریں اور امریکہ، اسرائیل، بھارت یا کسی غیر ملکی ’’شیطانی دماغوں‘‘ کے جال میں کسی صورت نہ پھنسیں۔ یمن کی صورتحال بگڑنے کے علاقائی ممالک پر مضر اثرات کا ادراک سینئر کور کمانڈرز کو بھی ہے جنہوں نے کور کمانڈرز کانفرنس میں واضح لائن لی ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ یمن کی جنگ میں کسی صورت اپنی افواج نہ جھونکی جائیں یہی پاکستانی مفادات کا تقاضہ ہے۔