امارات اور بنگلہ دیش کیلئے چودھری نثار کا نعرہ مستانہ

میرے لئے بڑی خوشی کی بات ہے کہ آج نوائے وقت کی ہیڈ لائن بہادر وزیر داخلہ چودھری نثار کا ولولہ انگیز بیان ہے۔ میں کسی حکمران سے ایسے جرات مندانہ بیان کی امید نہیں رکھتا مگر چودھری نثار نے ہمیشہ سچی کھری اور قومی بات کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عرب امارات کے وزیر انور قرتاش کا بیان سفارتی آداب کی خلاف ورزی، ستم ظریفی اور لمحہ فکریہ ہے۔ پاکستانی ایک غیرت مند قوم ہیں اور وہ سعودی عرب کے ساتھ عرب امارات سے بھی برادرانہ جذبات رکھتے ہیں۔ عرب امارات کے وزیر کی دھمکی ہماری قوم کی توہین کے مترادف اور ناقابل قبول ہے۔ یہ بیان ایک سچے اور دلیر پاکستانی حکمران کا بیان ہے جو پوری قوم کا ترجمان ہے۔ ہر آدمی اس بات سے خوش اور مطمئن ہوا ہے ورنہ حکمرانوں کی طرف سے اس طرح کی دفاعی بات آ رہی تھی کہ ہم اس بیان پر غور کریں گے اور پھر اپنے ردعمل کا اظہار کریں گے۔ بالعموم یہ ردعمل ردی عمل بن جاتا ہے۔ 

اس سے پہلے بھی جب نائن زیرو پر چھاپے کے بعد ایم کیو ایم کی قیادت نے پاک فوج اور رینجرز کے لئے نازیبا زبان استعمال کی تھی تو صرف چودھری نثار کی طرف سے پہلی زوردار اور قومی جرات کی آواز سنائی دی تھی کہ پاک فوج کے خلاف ہرزہ سرائی ناقابل برداشت ہے۔ اس کے بعد دوسرے سیاستدانوں نے بھی اپنے محتاط ردعمل کا اظہار کیا تھا مگر چودھری صاحب کے نعرہ¿ مستانہ کے بعد منفی آوازیں رک گئیں۔ چودھری صاحب کا وجود حکومت کے لئے نیک نامی اور نواز شریف کے لئے ایک غنیمت ہے۔ انہوں نے ساری سیاسی زندگی میں نواز شریف سے ہمیشہ وفا کی ہے۔ میرا خیال ہے کہ چودھری صاحب ہمارے مکمل سیاسی منظر نامے پر واحد آدمی ہیں کہ جن پر لوٹا ہونے کا کوئی داغ نہیں ہے۔ وہ سیاستدانوں کی عزت مندی کا چراغ ہیں ورنہ کوئی سیاستدان نہیں جو لوٹا ہونے کی ”سعادت“ نہ رکھتا ہو۔ میں سوچتا ہوں کہ جو لوٹوں کو قبول کرتے ہیں اور سینے سے لگاتے ہیں ان کو کیا کہا جائے؟ حیرت ہے کہ وہ جنرل مشرف کا چہیتا نواز شریف کا لاڈلا بننے کے بعدان سے ناراض بھی ہو جاتا ہے؟ طارق عظیم جنرل مشرف کا نائب وزیر اطلاعات تھا۔ اب غیراعلانیہ نواز شریف کا وزیر اطلاعات ہے۔ نواز شریف عزت مندی کامیابی اور سرفرازی چاہتے ہیں تو میری دست بستہ ان سے گزارش ہے کہ وہ شہباز شریف اور چودھری نثار سے مشورہ کریں اور اس پر عمل بھی کیا کریں۔ نواز شریف کے لئے چودھری نثار اور شہباز شریف نے بڑی بڑی پیشکش ٹھکرا دی ہے؟ اور پھر یہ کہ اپنے دل سے بھی مشورہ کریں۔ اللہ خیر کرے گا۔
سعودی عرب کے لئے پاکستان نے ہمیشہ دیدہ و دل فرش راہ کئے ہیں۔ سعودی عرب نے بھی جتنی محبت خدمت اور عزت پاکستان کے لئے روا رکھی ہے اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ہے۔ وہاں حرمین شریفین ہے۔ جب خانہ کعبہ پر قبضہ ہوا تھا تو پاکستانی فوج نے باغیوں کو کان سے پکڑ کے باہر نکال دیا تھا۔ وہاں روضہ¿ اطہر ہے جسے دیکھنا بھی ہمارے لئے دین و دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ ہم جان و دل اس کے لئے قربان کرنے کو اپنا ایمان سمجھتے ہیں۔ عشق رسول جو پاکستان کے لوگوں میں ہے عالم اسلام میں کہیں نہیں ہے۔ میں معذرت کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ سعودی عرب کے مسلمانوں میں بھی نہیں ہے۔ میں پاکستان کو خطہ¿ عشق محمد کہتا ہوں۔ اسرائیل اگر بھارت کی طرح کسی ملک سے ڈرتا ہے تو وہ پاکستان ہے۔ ہمارے پاس دنیا کی بہترین فوج ہے۔ ہمارا یہ سالار جنرل راحیل شریف ایک بہادر پرانے جرنیلوں کی طرح ایک نیا سپاہی ہے۔ ممتاز مفتی کے بقول وہ اندر سے قدیم اور باہر سے جدید ہے۔ وہ پاکستان اور پاکستانی سیاست کو قومی دھارے میں لانا چاہتا ہے۔ چودھری نثار سیاسی قیادت اور عسکری قیادت کے درمیان رابطے کا سب سے بڑا ستون ہے۔ میری معلومات کے مطابق اس کے خاندان والے سیاست میں ہیں اور فوج میں ہیں۔ وہ سیاسی اور عسکری قیادت کے امتزاج سے اپنا مزاج بنا کے رکھتا ہے۔ وہ مکمل بھروسے کا آدمی ہے۔
ہماری فوج حرمین شریفین کے لئے دل و جان سے حاضر ہے۔ سعودی عرب کے اندر بھی خدمت کے لئے تیار ہے۔ مگر یمن میں ہماری فوج کا داخل ہونا بہت مسائل پیدا کرے گا۔ ثالثی وقت کا تقاضا ہے۔ مذاق نہیں ہے۔ اس حوالے سے جنرل راحیل شریف اور نواز شریف مل کر کوئی فیصلہ کریں۔ چودھری نثار کو بھی اس میں شریک کریں۔
بنگلہ دیش میں 1971ءمیں پاک فوج کا ساتھ دینے والوں کے لئے حسینہ واجد ایک ظالمانہ اور بے انصافی کا رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اس کے لئے جماعت اسلامی کی لیڈر شپ کے علاوہ کوئی موثر آواز پاکستان سے نہیں اٹھی۔ صرف قومی درد جرات اور طاقت سے لبریز آواز چودھری نثار کی گونجی ہے اس کی گونج پوری دنیا میں سنی گئی ہے، بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنماﺅں کو 45 سال بعد پھانسی پر پاکستانیت خون کے آنسو روتی ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ عالمی برادری نوٹس لے 1970ء میں اس وقت کی آئینی قانونی حکومت اور پاک فوج سے وفاداری نبھانے والوں کو 45 سال بعد پھانسی دینا سخت بے انصافی ہے۔ یہ کونسا داخلی معاملہ ہے۔ جمہوریت انسانی حقوق کے علمبرداروں کو بنگلہ دیش میں غیر انسانی صورتحال کا نوٹس لینا چاہئے۔ پاکستان میں جائز پھانسیوں کے معاملے پر یورپی یونین اور اقوام متحدہ چیختی چلاتی ہے۔ اب کیوں نہیں بولتی؟ برادرم لیاقت بلوچ امیرالعظیم فرید پراچہ کے ساتھ اس معاملے میں گفتگو ہوئی۔ یہ بہت بڑی زیادتی ہے۔ بنگلہ دیش کے سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کر کے احتجاج کیا جائے۔
اس ضمن میں اگر کسی ہڑتال کا اہتمام کیا جائے تو میں سب سے پہلے اس میں شریک ہونگا۔ حسینہ واجد بتائے کہ جن لوگوں نے اس کے والد شیخ مجیب الرحمٰن اور سارے خاندان کو قتل کیا وہ پاکستانی نہ تھے؟ ان کو پھانسی دی گئی؟ میرے خیال میں مکتی باہنی نے بھارت سے ٹریننگ لے کے پاک فوج اور حکومتی لوگوں کو قتل کیا۔ ان کو پھانسی دی جائے۔ وہ قومی مجرم ہیں۔ حسینہ واجد شکر ادا کرے کہ وہ بچ گئی۔ اسے اس کا کفارہ ادا کرنا چاہئے اور صرف بھارت کے اشاروں پر نہیں چلنا چاہئے پاکستان بھی بنگلہ دیش کا دوست ملک ہے۔ جب بھارت نے بنگلہ دیش کے خلاف کوئی کارروائی تو صرف پاکستان اس کی مدد کو آئے گا۔ بھارت دوسرے سارک ممالک کی طرح بنگلہ دیش کو بھی اپنی کالونی بنا چکا ہے۔ صرف پاکستان بھارت کو کھٹکتا ہے۔ بھارت خود پاکستان کے خلاف کسی اقدام کی جرات نہیں کر سکتا تو بنگلہ دیش کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔
بنگلہ دیش کو سفارتی آداب کی پیروی کرنا چاہئے۔ ورنہ اس کے نتائج بہت خطرناک نکلیں گے۔ ہم ایک بار پھر چودھری نثار کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے سارے پاکستانیوں کی ترجمانی کی ہے۔ یہ ترجمانی کسی دن جانفشانی بھی بن سکتی ہے۔ پاکستانی قوم اور پاکستانی فوج سے بڑھ کر قومی غیرت کے لئے قربانی کوئی نہیں دے سکتا۔

ای پیپر دی نیشن