بن بلائے مہمان اور نرگسی کوفتے

Apr 14, 2015

مطلوب وڑائچ

متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ ڈاکٹر انور قرقاش کی پاکستان کو دی جانے والی دھمکی کے بعد بیس کروڑ پاکستانی یقینا رنج و غم اور غصے سے تلملا رہے تھے اور سوچ رہے تھے یہ وہی یو اے ای ہے جس کی بلند و بالا عمارات شان و شوکت حتی کہ اس کی قومی ائرلائن اور بینکنگ سسٹم تک پاکستان کا مرہونِ منت ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ جب یو اے ای اپنے پائوں پر کھڑا ہوا تو ہمارے احسانات بھول کر ہمارے گوادر جیسے میگا پراجیکٹ کو ناکام بنانے کے لیے کوشاں ہوگیا اور متحدہ عرب امارات ہمارے لیے ’’باڑہ‘‘ یعنی علاقہ غیر کی حیثیت اختیار کر گیا۔ قارئین! میں آج وزیر داخلہ چودھری نثار کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں کہ جنہوں نے امارتی وزیر خارجہ کو بروقت ’’شٹ اپ‘‘ کال دے کر انہیں ان کی اوقات یاد دلا دی ہے ۔ دراصل یہ کہانی اس وقت شروع ہوئی جب شاہ سلیمان نے عنان اقتدار سنبھالی تو یمن میں جاری ستر سالہ پرانی شورش نے پھر سر اٹھایا تو نئے بادشاہ سلامت نے غریب پڑوسی ملک کو سبق سکھانے کا تہیہ کر لیا اور پھر اسی سلسلے میں پاکستانی وزیراعظم کو دورہ سعودی عرب کی دعوت دی گئی جہاں پر ان سے وعدہ و پیماں لیے گئے اور وزیر اعظم نے سعودی بادشاہ سے کہا کہ وہ پاکستان جا کر ایک اعلیٰ سطحی ڈیفنس وفد بھیجیں گے تاکہ آپکی دفاعی ضروریات کا اندازہ لگایا جا سکے۔ وزیراعظم نوازشریف نے وطن واپس آ کر جز وقتی وزیر دفاع خواجہ آصف اور جزو قتی مشیر خارجہ سرتاج عزیز کو سعودیہ بھیجنے کا اعلان کیا تو عسکری قیادت کا ماتھا ٹھنکا جنہوں نے وزیراعظم سے کہا کہ وہ وزیر دفاع اور وزیر خارجہ کے ساتھ فوجی آفیشل بھی روانہ کریں بادل نخواستہ وزیراعظم کو یہ تجویز نما حکم ماننا پڑا اور دو جنرل سعودیہ جانے والے وفد میں شامل کر دیئے گئے۔ جب یہ وفد سعودیہ پہنچا تو وہاں پر پاکستانی ایمبیسی سٹاف نے ان کا استقبال کیا۔ جہاں خواجہ آصف نے ایک سیکرٹری کے کان میں کہا کہ ہمارے ساتھ یہ جو دو ’’بِن بلائے مہمان‘‘ آئے ہیں ان پر گہری نظر رکھی جائے۔ متعلقہ سیکرٹری نے یہ بات آرمی آفیشل کو وہیں پر بتا دی اور ان افسران نے پاکستان میں اپنے باس کو صورت حال سے آگاہ کر دیا۔ اس دوران پاکستان میں جوڈیشل کمیشن کا قیام مکمل ہو چکا تھا۔ پی ٹی آئی کی قیادت تذبذب کا شکار تھی کہ وہ اسمبلیوں میں جائے یا نہ جائے کہ اسے امپائر کی طرف سے اشارہ ملاکہ وہ ہر صورت اسمبلیوں میں واپس جا کر نوازشریف کے سعودیہ پلان کو بلاک کرنے میں کردار ادا کرے۔اس کے اگلے دن یمن اور سعودیہ کے مسئلے پر پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس طلب کیا گیا جس میں پی ٹی آئی کی غیر متوقع شرکت پر برہم ہو کر خواجہ آصف نے پی ٹی آئی قیادت اور اراکین کی دھنائی کر دی۔ مگر دو دن بعد پاکستان کی سعودیہ نواز حکومت کو اس وقت سخت ہزیمت اٹھانا پڑی جب پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں نے مشرقِ وسطیٰ میںفوج نہ بھیجنے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی اور تب ایک اعلیٰ فوجی افسر نے خواجہ آصف کے قریب سے گزرتے ہوئے ایک فقرہ کسا کہ دیکھا بِن بلائے مہمان کیا ہوتے ہیں؟ قارئین! پاکستان سے دس گنا بڑا دفاعی بجٹ رکھنے والا سعودی عرب اور اس کے دیگر اتحادیوں کے پاس اسلحہ فوج اور وسائل کی کمی نہ تھی اگر کسی چیز کی کمی تھی تووہ گولیاں کھانے والے سینوں کی کمی تھی۔ قارئین پارلیمنٹ سے قرارداد منظور ہونے کے بعدتربت اور پشاور سمیت ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے جو یارانِ وطن کے لیے لمحہ فکریہ ہے؟قارئین! گذشتہ روز آخر کار سابق صدر آصف علی زرداری نے تمام تر تکلفات کو ایک طرف رکھتے ہوئے یہ اعلان کر ہی دیا کہ وہ پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو تاوقتیکہ وہ بالغ نہیں ہو جاتے ان کے عہدے کو معطل کرتے ہیں۔ جس پر بلاول بھٹوزرداری نے فون پر اپنے والد سے پوچھا کہ میں اپنی والدہ کی وصیت کے مطابق چیئرمین بنا آپ مجھے معطل نہیں کر سکتے جس پر سابق صدر نے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا کہ جس طرح میں نے اس وصیت کو تیار کیا اور آپ کو چیئرمین بنایا س طرح میں ایک دوسری وصیت جو آپ کے بالغ ہو جانے کے بعد آپ کو چیئرمینی سونپی جائے وہ بھی ڈھونڈ کر لا سکتا ہوں۔جس پر بلاول صاحب نے فوری طور پر اپنی کزن فاطمہ بھٹو اور پارٹی کے اندر بے نظیر بھٹو کے قریبی ساتھیوں سے مشاورت شروع کر دی ہے۔ دوسری طرف سابق صدر کو پیپلزپارٹی کے اندر ہونے والی اس نئی ڈویلپمنٹ کی اطلاع ملی تو انہوں نے پیپلزپارٹی کی موجودہ خود ساختہ سینٹرل کمیٹی کا اجلاس بلا کر بلاول کے ساتھیوں کو گندے انڈوں سے تشبیہ دی۔ میرے ایک پیپلزپارٹی کے دور کے سینئر ساتھی اور شہید بی بی کے قریبی وفادار دوست نے کہا کہ آج وہ لوگ جو بی بی شہید اور قائدعوام شہید کے وفادار ہیں انہیں گندے انڈوں سے تشبیہ دینا ہماری پارٹی کے ساتھ چالیس سالہ رفاقت پر نہ صرف عدم اعتماد ہے بلکہ پیپلزپارٹی کے سینئر اراکین کی سرعام تذلیل بھی ہے۔ قارئین! جھورا جہاز کہہ رہا تھاکہ جو بھٹوز کے وفادار تھے آج ان کو گندے انڈے کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ انہی انڈوں میں سے جن انڈوں نے سابق صدر کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال دیا ہے ان کو کیا ’’نرگسی کوفتے‘‘ کہا جائے گا؟ قارئین! آئندہ ہفتے کراچی میں حلقہ 246کے ضمنی الیکشن ہونے جا رہے ہیں جس میں حصہ لینے والی تینوں سیاسی جماعتوں نے سیاسی درجہ حرارت انتہائی بلندی پر پہنچا دیا ہے اور بظاہر یوں لگتا ہے کہ اس حلقے میں آنے والے نتائج پاکستان کی آئندہ سیاست کی راہیں متعین کریں گے مگر سیاسی جماعتوں کو سوجھ بوجھ کے ساتھ قدم اٹھانا ہوں گے یہ الیکشن اور یہ سیٹ پاکستان، بھارت اور اسرائیل کے درمیان میچ نہیں اور نہ ہی یہ آئی ایس آئی، را اور موساد کی جیت ہار کا فیصلہ کرے گی۔ دراصل یہ ہمارا اندرونی سیاسی معاملہ ہے جسے ہمیں تمام تر اخلاقیات ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے دانش مندی سے قدم اٹھانے ہوں گے کسی سیٹ اور کسی حلقے کو کوئی بھی پارٹی انا کا مسئلہ نہ بنائے کیونکہ یہ وطن کسی کے باپ کی جاگیر نہیں ہے یہ بیس کروڑ پاکستانیوں کی جائے پناہ، امان ہے۔

مزیدخبریں