پیر کو سینٹ کا اجلاس ایک ہفتے کے بعد منعقد ہوا تو چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے اجلاس بروقت شروع کر کے ایک اچھی روایت کی بنیاد رکھ دی ، وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو سینٹ کے اجلاس میں زبردست پذیرائی حاصل ہوئی ، وہ اپنے مخصوص انداز سیاست اور قومی سوچ کی وجہ سے سینیٹ کے ’’دولہا ‘‘ بن گئے ،چوہدری نثار چوہدری اعتزاز احسن کے غیر دوستانہ رویہ کے باعث ایسے روٹھ گئے کہ ایک سال سے زائد سینٹ کا رخ نہیں اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ میدان چھوڑگئے یا اپوزیشن سے مرعوب ہو گئے بلکہ وہ ترکی بہ ترکہ جواب دے کر ’’مصلحتوں کی شکار‘‘ حکومت کے لئے مسائل پیدا نہیں کرنا چاہتے تھے، ایک سال بعد انہوں نے ایوان کو رونق بخشی لیکن ارکان پارلیمنٹ نے ان کے اس جرات مندانہ بیان پر داد تحسین کے ڈونگرے برسائے جو انہوں نے بنگلہ دیش میں 1971ء میں متحدہ پاکستان کی سلامتی اور بقا کیلئے قربانیاں دینے والوں کو پھانسی دینے پر دیا،وقفہ کے چوہدری نثار علی خان ایک گھنٹہ سے زائد پارلیمنٹ میں اپنے چیمبر میں ’’آف دی ریکارڈ ‘‘ محفل سجائی ،ان کی گفتگو سے اندازہ لگا جا سکتا ہے وہ اپنی وزارت کی کارکردگی سے پوری طرح مطمئن ہیں تمام پارلیمانی جماعتوں کے قائدین نے 1973کے آئین کو پاکستان کی تمام قومیتوں ، علاقوں اور نسلوں کے عوام کے درمیان طے پانے والی متفقہ اور مقدس دستاویز قرار دیتے ہوئے کہا کہ متفقہ آئین کا کریڈٹ جہاں ذوالفقار علی بھٹو کو جاتا ہے وہیں مفتی محمود، پروفیسر غفور اور قوم پرست جماعتوں کے قائدین بھی کریڈٹ کے مستحق ہیں۔