کراچی(نوائے وقت رپورٹ) امریکی جریدہ ’’فارن پالیسی‘‘ کے مطابق اوباما نے نوازشریف کو بتادیا تھا کہ وہ پاکستان کا اس وقت دورہ کریں گے جب وہاں کی سکیورٹی صورتحال معمول پر آجائے گی۔ جنوری 2015ء میں اوباما نے جنوبی ایشیائی خطے میں اپنا دوسرا دورہ کیا وہ بھارت تو گئے، مگر پاکستان نہیں آئے۔ بھارتی نقطہ نظر سے اوباما کا دورہ کامیاب تھا، اوباما اور مودی نے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی منتقلی کے 2005ء سے التوا میں پڑے معاہدے کی تجدید کی۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے پوری کوشش کی کہ اوباما پاکستان کا دورہ کریں، لیکن اس میں وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ اوباما نے نوازشریف کو فون کرکے بتا دیا تھا کہ وہ بھارت کا دورہ کریں گے۔ اوباما کے دورہ پاکستان نہ کرنے کے اقدام کو سابق گورنر پنجاب چودھری سرور نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی سفارتی ناکامی قرار دیا تھا۔ ان کا یہ بیان ان کے استعفیٰ کا سبب بنا کیونکہ ان کے بیان نے پاکستان کے سرکاری موقف کو چیلنج کیا۔ ’’اوباما پاکستان کا کیوں دورہ نہیں کریں گے‘‘ نامی مضمون میں پاکستانی حکومت اور فوج کے خلاف زہرافشانی کی گئی ہے۔ لکھا ہے کہ امریکہ کے نوٹس لینے سے پہلے پاکستان کو اپنی معاشی سرگرمیوں اور متضاد پالیسیوں کے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ 1947ء سے ہی پاکستان کی خارجہ پالیسی واضح نہیں، پاکستان میں کئی عوامل نے غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے رکاوٹیں پیدا کیں۔ 2013ء کے بعد نوازشریف نے چین اور ایران کے ساتھ کئی مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے مگر ان میں بہت کم حقیقت کا روپ لے پائے۔ پاکستان اور چین کے درمیان ایک مشترکہ منصوبہ نندی پور پاور پلانٹ صرف پانچ دن آپریشنل ہوپایا۔ پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے میں ایران کے خلاف امریکی اور اقوام متحدہ کی پابندیاں آڑے ہیں۔ چین نے 2011ء میں کیے گئے تھر کول کے معاہدے سے 19 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیا اور بلوچستان میں ریکوڈک بھی قانونی پیچیدگیوں کا شکار ہوگیا۔ غیر ملکی سرمایہ کارپاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے تیار نہیں۔