”پنجاب حکومت کا نیا کارنامہ “

Apr 14, 2016

بریگیڈیئر (ر) محمود الحسن سید

کاروباری ، تعلیمی اور دیگر اداروں میں کام کرنے والے افراد کی فلاح وبہبود اور بڑھاپے میں مالی مدد اور آسودگی کی خاطر حکومت کی طرف سے (EOBI) کے نام سے ایک سیکم شروع ہے

EMPOLYEES OLD AGE BENIFIT INSTITUTIONقانون کی رو سے ہر وہ ادارہ جس میں کم سے کم 10 افراد یا اس سے زیادہ کام کرتے ہوں اُن پر EOBI کی ادائیگی لازم ہو جاتی ہے اور اُ ن کے لےے محکمہ ہذا میں اپنے ادارے کو رجسٹر کروانا لازمی ہے۔ EOBI کے قوانین کے مطابق کسی بھی ادارے میں کام کرنے والے افراد کی MINIMUM ٰیعنی کم سے کم تنخواہ کا تعین حکومت کی طرف سے کیا جاتا ہے اور اگر کوئی فرد اس سے کم تنخواہ پر بھی کام کر رہا ہوتو اُس صورت میں بھی EOBI کی رقم کم سے کم تنخواہ کے حساب سے واجب ادا ہوتی ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے
01-07-2013 سے‘ 30-06-2014‘ 10,000 روپے ماہانہ‘ 01-07-2014 سے‘ 30-06-2015‘ 12,000 روپے ماہانہ‘ 01-07-2015 سے‘ 30-06-2016‘ 13,000 روپے ماہانہ‘ .... قانون کے مطابق ہر EMPLOYEE یعنی کام کرنے والے فرد کو اپنی تنخواہ سے کچھ رقم ادارے کے ذریعے جمع کروانی ہوتی ہے علاوہ ازیں ادار ہ بھی اُس کے نام پر رقم ادا کرتا ہے ۔ ادارے کی طرف سے 5 فیصد اور ملازمین کی طرف سے ایک فیصد کے حساب سے رقم ادا کی جاتی ہے۔ پنشن کے لےے مرد کی عمر کی حد 60 سال اور خاتوں کے لےے55 سال مقرر کی گئی ہے۔
پرانی شرح ادائیگی: ادارے کی طرف سے 400 ماہانہ
ملازم کی طرف سے 80 ماہانہ
EOBI کے محکمے کی طرف سے کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا تھا کہ ماہانہ کنڑی بیوشن کے ریٹ بڑھ گئے ہیں جس کی وجہ سے تمام ادارے یہ کنڑی بیوشن پرانی شرح جو کہ 01-07-2013 تا 30-06-2013 تک تھی ادا کر رہے تھے۔ اب حکومت نے 01-07-2013 سے کنڑی بیوشن کے ریٹ میں دروبدل کر دی ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں
ادارہ‘ ملازم
01-07-2013 سے‘ 30-06-2014‘ 500 روپے ماہانہ 100 روپے ماہانہ‘ 01-07-2014 سے‘ 30-06-2015‘ 600 روپے ماہانہ‘ 120 روپے ماہانہ‘ 01-07-2015 سے‘ 30-06-2016‘ 650 روپے ماہانہ‘ 130 روپے ماہانہ‘
مندرجہ بالا احکامات کے نتیجے میں ہر ادارے کو 250 روپے ماہانہ فی ملازم کے حساب سے بقایا جات ادا کرنے ہو نگے۔ جس میں ادارہ ہی ملازم کے ذمہ 50 روپے ماہانہ بھی ادارہ ادا کرے گا۔اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ ایک عرصہ گزر جانے کے بعد ملازمین کی کثیر تعداد متعدد وجوہات کی وجہ سے اب ملازمت چھوڑ چکی ہیں لیکن حکومتی احکامات کی رو سے 2013 سے اب تک وہ تمام واجبات جو ادارے اور ملازمین نے ادا کرنے تھے اب ادا کئے جائےں گے۔ یہ نادر شاہی حکم عقل وفہم سے بالاتر ہے اور اس کا کوئی قانونی جواز نہیں بنتا۔
قارئےن! دراصل حقیقت یہ ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کو ملک اور اس کے عوام سے قطعی کوئی ہمدردی یا اُنس نہیں وہ صرف اور صرف اپنے مفادات کے تابع ہیں اور اُن کی تمام تر کاوش اپنے اور اپنے بچوں یا قرابت داروں کی فلاح و بہبود ہے۔ اس سلسلے میں تازہ ترین مثال پانامہ لیکس کی طرف سے کئے جانے والے انکشافات ہیں جن میں دنیا کے متعدد ممالک کے افراد شامل ہیں ان میں پاکستان کے بہت اہم سیاسی شخصیات بھی شامل ہیں ۔ اس پانامہ لیکس کے سکینڈل کے بعد پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں اُس میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کاروائےوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں عدالت عالیہ اس کا فوری نوٹس لیتے ہوئے کاروائی شروع کی دی ہے۔ اسی طرح چین نے بھی اپنے ملک سے تعلق رکھنے والے افراد کی پکڑ دھکڑ شروع کر دی ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو وہ واحد ملک ہے جہاں ابھی تک صرف وضاحتیں اور اس پر تبصرے ہو رہے ہیں۔ اور اب ایک رٹیارئرڈ جج کے ماتحت ایک کمیشن قائم کیا ہے جس کو تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں نے مسترد کر دیا ہے۔ کیونکہ اُس سے اُن کو انصاف کی قطعی امید نہیں ہے۔وزیر اعظم پاکستان کے بیٹے حسن شریف نے کہا ہے کہ انہوں نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک سے اتنی خطیر رقم باہر کس طرح گئی۔ اوّل تو یہ تمام رقوم قانونی طور پر باہر نہیں بھیجی گئیں اور اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ وہ قاعدے اور قانون کے مطابق باہر ٹرانسفر کی گئی تو ایک عام آدمی ضرور جاننا چاہے گا کہ یہ اربوں ڈالر کہاں سے آ¾ے اور یہ کی سرمایہ کاری اپنے ملک میں کیوں نہیں کی گئی۔ ہمارے لیڈر رہتے یہاں ہیں اور اپنے کاروبار اور اربوں روپے کی جائےدادیں باہر بناتے ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیں قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد کوئی محب وطن لیڈر نہیں ملا۔ کیا ہمارے قائد نے اپنی دولت غیر ممالک میں جمع کی؟ یا وہاں جائےدار خریدی؟ لیاقت علی خان جو کہ ایک نواب خاندان سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے پاکستان آ کر یہاں پر بھارت میں چھوڑی ہوئی اپنی بہت بڑی جائےداد کو کلیم نہیں کیا جب وہ شہید ہوئے تو اُنکے اکاونٹ میں صرف 10 روپے تھے۔ دراصل لالچ کی کوئی انتہا نہیں اور دولت کی ہوس کبھی ختم نہیں ہوتی یہ ایسی پیاس ہے کہ جتنا پییں اتنی ہی بڑھتی رہی ہے ۔

مزیدخبریں