73ءکے مقدس آئین کا تضاد

Apr 14, 2016

محمود فریدی

علم سیاسیات کے مطابق کسی بھی ریاست کے چار جزو بنیادی ہوتے ہیں۔ خطہ، عوام، حکومت ماضی اقتدار اعلیٰ اور آئین۔ کہنے کو تو آئین چند صفحوں کی کتاب ہے مگر یہ وہ عمرانی معاہدہ ہوتا ہے جسے کسی خطے کے عوام مشرف قبولیت دے کر ریاست کا قیام عمل میں لاتے ہیں۔ یہ ریاست کا جواز اور اساسی قانون ہوتا ہے اسے قانون القوانین یا مادر قانونی Mother Law بھی کہا جاتا ہے اس دستاویز، تحریر یا عبارت میں ریاست کے عوام کو ظہور و تنظیم کا طریق کار درج ہوتا ہے۔ حکومتی اداروں (انتظامیہ، عدلیہ، مقننہ) کی تشکیل و اہتمام کا خاکہ موجود ہوتا ہے۔ آج دنیا کے سبھی ملکوں اور معاشروں کا نظام کسی نہ کسی آئین کے تحت چل رہا ہے۔ جدید طرز حکمرانی یعنی جمہوریت کا گہوارہ ہونے کے سبب برطانیہ کو سب سے پرانی، راسخ جمہوریت Mother Democracy کہا جاتا ہے دنیا بھر کی جمہوری روایات کو وہیں سے روشنی ملتی ہے مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ خود برطانیہ کا آئین تحریری شکل میں موجود نہیں۔ بس سیاسی روایات کی قوس قزح فضا میں دکھائی دیتی ہے جس کی جھلک ہی وہ دستاویز ہے جس پر انگریز معاشرہ صدیوں سے عمل پیرا ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں آئینی تاریخ ایک رام کہانی ہے ۔ 1935ءکے انگریزی قانون آزادی ہند کی جڑ سے پھوٹی نو دس سالہ دستور سازی کی بیل جس پر 22بائیس نکات کی کلیاں بھی نمودار ہوئیں اور 56ءمیں کنول کا پھول برآمد ہوا۔ 62ءمیں دلچسپ پیرائیہ آفرینش کے ذریعہ کنول کے پھول کو بنیادی جمہوریت کی کھاد ڈال کر سورج مکھی بنا دیا گیا۔ بالآخر 73ءمیں سورج مکھی کی جگہ نئے سرے سے گلاب کا پھول اگایا گیا جسے اس لحاظ سے قائم و دائم اور ناقابل تسخیر قرار دیا گیا کہ اسکے تنے میں دفعہ 6 کا کانٹا نصب کرکے اسے ناقابل تنسیخ گردانا گیا مگر بسار آرزو کہ خاک شود۔ پاکستانی قوم کی قسمت کا نگہبان اور ترجمان 73ءکا متفقہ آئین بنتے وقت جس قدر عظیم الشان اور مقدس تھا صد حیف! اسے مقدس گائیوں کے باڑے کا محافظ بنا دیا گیا۔

واویلائے تزئین محبت کے عقب میں
تقدیس کے چھپر تلے اب گائے بندھی ہے
اس آئین کی حرمت اور برتری شروع دن سے ہی متزلزل اور متنازعہ ہو گئی تھی اسے گھسیٹتے ہوئے عام قانون (موم کی ناک) کی طرح اس میں وقتی ضرورتوں کے تحت من مرضی کی ترامیم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ معاشرے کو تقویم و تجسیم اور تحریم عطا کرنے والی تحریر کے چیتھڑے عدالتوں میں اڑے۔ اعلیٰ عدلیہ نے سرپھرے حکمرانوں کو ایسی ایسی، عنقا اور نایاب سہولتیں عطا کیں کہ فرد واحد کو اس اساسی دستاویز کی نوک پلک تو کجا ہڈی پسلی ایک کرنے کا اختیار دے دیا۔
جدید ریاست میں آئین کا بنیادی کردار عوام کے حقوق کا تحفظ ہوتا ہے میگنا کاٹا سے لیکر آج تک ساری دستوری تاریخ کا خلاصہ ہے عوام بنام حکمران، عوامی حقوق کی جدوجہد کی کہانی ہی لفظ آئین کی تشریح توضیح ہے۔ 73ءکے آئین کو بنانے والوں نے جنت ارضی کا خاکہ تیار کیا تھا مگر عملاً کیا ہوا۔ تعمیر شدہ منزل مراد ”جنت“ پر غلاف ڈال کر اسے حنوط شدہ مجسمے کی طرح میوزیم کا ماڈل بنا دیا گیا۔ اسکی ابتدائی چالیس دفعات میں عوامی حقوق اور امنگوں کی تفصیل ہے۔ یہی حصہ پاکستانی عوام کا میگنا کارٹا ہے مگر اس حصے میں عوام کے ساتھ ہاتھ کیا گیا ہے۔ بنیادی حقوق کے سبز باغ میں کیا ہے کیا پھول ہیں جان و مال کا تحفظ، چادر چاردیواری، رزق حلال، ملازمت، صحت عامہ، تعلیم، مساوات، میرٹ ، عدل و انصاف، محفوظ سفر، کاروبار، امن و امان، حتیٰ کہ آزادی کے سارے ممکنہ تصورات کی دلکش تصویر۔ مگر عملاً یہ آئین اپنے حقیقی مطالب و معانی کے الٹ صرف اشرافیہ اور مخصوص طبقے کی امنگوں اور ضرورتوں کا رکھوالا بن گیا ہے۔ عوام سے اس کا کوئی تعلق نہیں رہا۔ روٹی، تعلیم و صحت، چھت جیسی بنیادی انسانی ضرورتوں کی فراہمی کی ریاستی ضمانت کو اور ذمہ داری کو کمال ہوشیاری سے اگر مگر سے مزین القوائی حربوں کی نذر کر دیا گیا ہے اس طرح یہ گلستان درحقیقت وہ آتش فشاں بن گیا ہے جس کے نیچے محروم طبقے کی امنگوں کا لاوا جمع ہو رہاہے۔
پانی میں آگ، آگ میں ہے برف منجمد
اک کارخانہ ہے مرے اندر تضاد کا
اس آئین کا سہارا لیکر ہر ریاستی ادارہ پاکستان کو دو واضح حصوں اور طبقوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ غریب کا پاکستان اور امیر کا پاکستان میں سیاسی پارٹیاں شخصی آمریت کی بدترین مثال ہیں ۔
آئینی حقوق کا تحفظ بذریعہ آب عبات لانے یا نہانے سے کم کا نسخہ نہیں۔ انصاف کھجور کا درخت ہے تعلیم ہولی کے کھیل کی طرح ست رنگی ہے صحت کا سارا بجٹ مخصوص طبقے کی نازکی طبع کیلئے مختص ہے رہی امن اور سلامتی تو اسے گاﺅں سے بھاگے عرصہ بیت گیا۔ کم از کم تنخواہ 13ہزار مقرر ہے مگر دو ہزار سے لیکر پچاس لاکھ ماہانہ کے من مانے گریڈ چل رہے ہیں۔ الغرض بنیادی حقوق کی ضمانت اور فراہی سے گریز وہ تضاد ہے جو عوام کے ساتھ کھلے مذاق سے کم نہیں جسے دیکھ کر کوئی بھی جید ماہر قاون ہنسے بغیر نہیں رہ سکتا۔

مزیدخبریں