ملک اور عوام کی خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ سیاست دان اپنے سیاسی مقاصد پورے کرنے کیلئے محفوظ و مامون اور سلامتی کے راستے تلاش کریں اپنی بات شائستگی اور مہذب طریقے سے عوام کے سامنے رکھیں۔ اتنی دھول نہ اڑائیں کہ کاروبار ماحول خراب ہو جائے حکومت کی کمزوریوں کی نشاندہی ضرور کریں لیکن عوام اور کاروباری طبقہ کے نزدیک تنقید اور احتساب کی بات اسی صورت اثر پذیر ہو گی کہ اگر صاحبان تنقید کی اپنی کارکردگی شک و شبہ سے بالا و مبرا ہو، اپنے اپنے وقت میں انہوں نے سرکاری وسائل کے استعمال میں امانت و دیانت اور میرٹ کو عزت دی ہو انکے پاس عوام کی خدمت کا چارٹ دلکش و دلپذیر ہو۔
سب سے بڑی اور اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے دور میں بے روزگاری پر قابو پانے کیلئے صنعتکاری بڑھانے اور سرمایہ کاری لانے کیلئے شاندار کارکردگی دکھائی ہو۔
2013ء کے الیکشن میں کامیابیوں کیلئے مختلف سیاسی جماعتوں نے اپنی اپنی کامیابیوں کے معیار اور خوش فہمیوں کے جال بن رکھے تھے ایک سیاسی جماعت کو زعم اور خوش فہمی تھی کہ اسکے کھاتے میں دو عدد وزیر اعظم اور ایک عدد صدر پاکستان ہے۔ یونیورسٹیوں، ایئر پورٹس اور متعدد حکومتی اداروں کے نام انہوں نے اپنے وقت میں اپنے بڑے ناموں سے منسوب کر رکھے ہیں۔ اندرون سندھ کے عوام مذکورہ بڑے ناموں کے ساتھ عقیدت و محبت کے رشتوں کو پالتے ہوئے اسی جماعت کو ووٹ دینگے انہی کی حکومت وجود پذیر ہو گی اور لوٹ مار کا بازار گرم رہے گا۔ اس جماعت کے ذمہ داران بھول گئے کہ پارٹی ہیڈ کے بیرون ملک بنکوں میں جپڑی دھن دولت واپس لانے کیلئے بار بارا نہیں خط لکھنے کیلئے کہا گیا، خط نہ لکھنے کی پاداش میں انکے وزیر اعظم ڈی سیٹ ہوئے لیکن خط نہیں لکھا۔
انکے دور میں بجلی کی شدید قلت رہی طویل دورانیہ کی لوڈشیڈنگ کا عذاب عوام کو جھیلنا پڑا۔ صنعتی نظام اپاہج ہوا۔ انہوں نے اپنے لیے اور آنیوالے دور کیلئے بجلی بنانے کے کسی کارخانے کی بنیاد تک نہیں رکھی۔ سستی بجلی بنانے کیلئے کالا باغ ڈیم سود مند ترین ذریعہ ہے لیکن انہوںنے عوام کاروباری طبقہ اور آبی ماہرین کی ایک نہ سنی۔ محدود مفادات کی سوچ رکھنے والے چند سیاست دانوں کو خوش رکھنے کیلئے کالا باغ ڈیم کو سرد خانے میں ڈال دیا۔ اس برسراقتدار جماعت کے مالک و مختار ہونے اور پاکستان کی صدارت کے عہدہ پر متمکن ہونے کے باوجود انہوں نے اپنی ہی جماعت کی سربراہ اور سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر کے قتل کی تحقیقات نہیں کرائی یا کرانے میں ناکام رہے اور مجرموں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچا سکے۔ یہ تھی وہ چارٹ شیٹ جسے اس جماعت کے ذمہ داران فراموش کر بیٹھے تھے لیکن عوام کے ذہنوں میں یہ سارے سوالات محفوظ رہے۔
جب 2013ء کے الیکشن میں آئے تو عوام نے اس جماعت کے بیشتر کرداروںکو مسترد کر دیا۔ اپنے اعمال کی پوٹری اٹھائے پارٹی ہیڈ بیرون ملک سدھار گئے۔ اب بھی یہ جماعت اسی ڈگر پر چل رہے ہی۔ تعمیر و ترقی اور عوامی خوشحالی کے لفظ نظر سے انکی کارکردگی میں کوئی اضافہ نہیں ہو سکا۔ شاید انکے نزدیک احتجاجی پروگرام بڑی بات ہو گی لیکن حالات بدل چکے ہیں اس لیے آئندہ بھی اسے خاطر خواہ کامیابی کی امید کم ہی نظر آتی ہے تاوقتیکہ اسکے ذمہ داران نے اپنی سوچوں کا رخ عوام کے مسائل اور ان کی خدمت کی طرف نہ موڑا ہمہ وقت حکومت کے ساتھ بر سرپیکار رہنے، ایجی ٹیشن کی دھمکیاں دینے اور ترقیاتی عمل کو روکنے میں ایک دوسری جماعت آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی ہے اسے یقین تھا کہ عوام کی بھاری اکثریت ہیرو پرستی کے شوق میں گم ہو کر اسے ووٹ دیگی، اسے یہ بھی زعم تھا کہ امانت و دیانت کا پروانہ صرف اس جماعت کے سربراہ کے پاس ہے۔
ان سارے خود ساختہ معیارات کو دیکھ کر انہیں یقین ہوا تھا کہ اقتدار کا ہما انہی کے پارٹی ہیڈ کے سر پر بیٹھے گا ضروری نہیں کہ عوام کی جانچ پرکھ پارٹی کے ذمہ داران کی سوچ کیمطابق نتائج دے۔ چنانچہ عوام نے اس جماعت کو حصہ بقدر جثہ دے دیا۔ پارٹی ہیڈ سخت غصے میں ہے وزیر اعظم پاکستان سے استعفیٰ لینے کیلئے ڈی چوک اسلام آباد میں طویل دورانیہ کا دھرنا دیا لیکن آخر کار خود استعفے دیکر واپس آ گئے۔ پانامہ پیپرز کا ایشو سامنے آیا تو اس جماعت کے ہیڈ ایک بار پھر ایشو کو وزیر اعظم پاکستان کی طرف موڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لمبی لمبی تقریروں اور پوری قوم کو حکم دینے اور اپنے پیچھے لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
شاید انہیں ادراک نہیں کہ زمینی حقائق تبدیل ہو چکے ہیں اب فیصلے تقریروں کی لمبائی چوڑائی کو دیکھ کر نہیں ہوتے بلکہ عمل اور عدل کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ پانامہ پیپرز کے پاکستان سے متعلق حصے کی چھان پھٹک کیلئے عدالتی کمیشن بن چکا ہے۔ اعتراضات کی بارش کرنیوالے سیاستدانوں کے پاس عدالتی کمیشن کے سامنے اپنے ثبوت اور دلائل پیش کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں رہا۔ بڑھکوں سے ملک کے اندر کاروباری حالات خراب کرینگے تو کاروباری طبقہ کے لاکھوں ووٹوں سے محروم ہو جائینگے کیونکہ سرمایہ کاری اشتراک عمل اور کاروبار کیلئے پرامن ماحول بہت ضروری ہے پاکستان کا کاروباری طبقہ اچھی طرح سمجھ اور جان چکا ہے کہ موجودہ حکومت نے مسلسل جدوجہد سے خارجہ سرمایہ کاری کی راہ ہموار کی ہے ۔
سی پیک پر کام شروع ہو چکا ہے۔ بجلی کے متعدد منصوبے زیر تعمیر و تکمیل ہیں، امید ہو چکی ہے کہ کچھ عرصہ بعد اندھیروں کا راج ختم ہو جائیگا۔ میٹرو بس اور اورنج ٹرین جیسے منصوبوں سے ٹرانسپورٹ کا نظام نئی جدتوں سے آشنا ہونے جا رہا ہے۔ وزیر اعظم کی کوششوں اور فرینڈلی رویوں سے چین، ترکی، ایران، سعودی عرب اور وسط ایشیائی ریاستوں سے کاروباری روابط میں گرم جوشی پیدا ہوئی ہے۔ دہشت گردی اور کراچی میں ٹارگٹ کلنگ ختم کرنے کی حکومت کاوشوں اور کامیابیوں کو بڑی عالمی قوتوں کی طرف سے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔
یہ ساری کامرانیاں صرف میاں نواز شریف کے کھاتے میں نہیں بلکہ حکومت اور پاکستان کے حصے میں آ رہی ہیں۔ اس لیے بات بات پر دوسروں سے حساب مانگنے والے محترم سیاستدان عوام کے خدمت کے ذریعے اپنا اعمال نامہ مزین کریں۔ حکومت کے ساتھ مل کر ایسا ماحول پیدا کریں کہ زیادہ سے زیادہ کاروباری راہیں کشادہ ہوں۔ برآمدات میں اضافہ اور بے روزگاری کا خاتمہ ہو، غریب آدمی صرف سیاستدانوں کے جلسوں میں گلا پھاڑ پھاڑ کر زندہ باد، مردہ باد کے نعرے نہ لگاتا رہے بلکہ اسے روزگار کے مواقع میسر ہوں۔ اسکے بچوں کو تعلیم اور علاج معالجہ کی سہولتیں ملیں۔ پاکستان ترقی کرے اور اس کا ہر شہری سینہ تان کر پاکستانی ہونے پر فخر کر سکے۔