قومی اسمبلی کا اجلاس وزیرمملکت انوشہ رحمن کے نام رہا

قومی اسمبلی کا اجلاس وزیر مملکت برائے آئی ٹی و ٹیلی کمیونیکیشن انوشہ رحمن کے نام رہا۔ بالآخر ان کی زیر قیادت وزارت آئی ٹی و ٹیلی کمینیکیشن اور پھر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی و ٹیلی کمیونیکیشن کے چیئرمین کیپٹن ( ر) صفدر کی سربراہی میں قائمہ کمیٹی کے ارکان کی شبانہ روز محنت کے باعث الیکٹرانک جرائم ( سائبر کرائمز) کے تدارک کیلئے احکام وضع کرنے کا بل ( الیکٹرانک جرائم کے تدارک کا بل2016-ئ) نے اتفاق رائے سے منظور کر لیا۔ جس میں دہشت گردی، الیکٹرانک فراڈ اور جعل سازی جرائم کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے، نفرت انگیز تقاریر اور مواد، بچوں کی فحش تصاویر سمیت 21 جرائم کو قابل سزا قرار دیا گیا ہے، 14 سال تک کی عمر کے بچوں پر اس کا اطلاق نہیں ہوگا۔ اس قانون کے اطلاق سے قومی سلامتی کو درپیش خطرات سے نمٹنا اور شہریوں کی عزت و آبرو اور جان و مال کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے گا، اس قانون کے تحت وفاقی حکومت سائبر کرائمز سے متعلق مقدمات کی تحقیقات کے لئے الگ ادارہ قائم کرے گی یا کسی بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے کو تحقیقاتی ذمہ داری سونپنے کی مجاز ہوگی۔ اگر یہ کہا جائے کہ قومی اسمبلی کی اس بل کی منظوری کے بعد نیشنل ایکشن پلان پر اس کی پوری روح کے مطابق عمل درآمد میں آسانی پیدا ہو جائے گی تو غلط نہیں ہو گا۔ اجلاس ڈپٹی سپیکر مرتضٰی عباسی کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس کی طوالت کے باعث ارکان اسمبلی کی بڑی تعداد ایوان سے جا چکی تھی۔ وزراء میں بھی بل کی محرک وزیر مملکت انوشہ رحمٰن کے علاوہ وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ میاں ریاض حسین پیرزادہ اور وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور آفتاب شیخ ہی ایوان میں موجود تھے۔ اپوزیشن بنچوں میں بھی حاضری نہ ہونے کے برابر تھی۔ شازیہ مری، پی ٹی آئی کی شیریں مزاری، ایم کیو ایم کی عائشہ سید اور ایم کیو ایم کی کشور زہرہ نہ صرف اجلاس کے آخر تک ایوان میں موجود رہیں بلکہ انہوں نے قانون سازی کے دوران بھرپور انداز میں حصہ لیا۔ سابق وفاقی وزیر آئی ٹی و ٹیلی کمیونیکیشن اویس لغاری کے ان ریمارکس پر کہ سائبر کرائمز بل کی تیاری کے دوران تو بعض ارکان کمیٹی سوئے رہتے تھے مگر اب اس پر وہ اظہار خیال کر رہے ہیں جس پر پیپلز پارٹی کی رکن شازیہ مری نے سخت رد عمل کا اظہار کیا کہ یہ معزز ارکان کی تضحیک ہے جس پر اویس لغاری نے کھڑے ہو کر کہا کہ ان کا مقصد کسی خاص رکن کی جانب نہیں پھر بھی اگر کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو میں معذرت خواہ ہوں۔ ڈاکٹر عارف علوی، ڈاکٹر شیریں مزاری، شازیہ مری، علی رضا عابدی سمیت بعض دیگر ارکان نے اپنی ترامیم اس بناء پر واپس لے لیں کہ ان کی ترامیم پہلے ہی بل کے مسودہ میں شامل کرلی گئی ہیں۔ سائبر کرائمز بل پر مجوزہ ترامیم کی شق وارمنظوری کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں نے وزیر مملکت آئی ٹی انوشہ رحمٰن کو مبارکباد دینا شروع کی تو ڈپٹی سپیکر نے مداخلت کرتے ہوئے ان سے کہا کہ آپ اس خوشی میں ایوان سے بل منظور کرانے کی تحریک تو پیش کرنا بھول ہی گئی ہیں جس پر انوشہ رحمٰن نے بلی کی منظوری کیلئے تحریک پیش کی اور ایوان نے متفقہ طور پر بل کی منظوری دے دی۔ اے پی ایس پشاور پر حملے کے بعد نیشنل ایکشن پلان کے بعد مزید غور کے لئے وزیراعظم نے بل کو پارلیمنٹ کو بھجوا دیا۔ اس کے بعد اس پر مزید کام کیا گیا۔بل 44 صفحات پر مشتمل ہے۔ ریاض حسین پیرزادہ نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ ہم تمام جماعتوں بالخصوص خواتین ارکان کی اس بل کی تیاری اور اس کی ایوان سے منظوری کے مراحل میں غیر معمولی دلچسپی کو قدر کی نظر سے دیکھتے ہیں اور پورے ایوان کی جانب سے خواتین ارکان کے خاص طور پر مشکور ہیں۔ قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد اب اس بل کو سینیٹ میں پیش کیا جائے گا اور سینیٹ سے اس بل کی منظوری کے بعد صدر مملکت کو دستخط کیلئے بجھوایا جائے گا اور ان کی منظوری کے بعد یہ قانون آئین کا حصہ بن جائے گا۔ قومی اسمبلی نے غیر ملکی زرمبادلہ انضباط بل 2014ء کی بھی اتفاق رائے سے منظوری دی۔ کشورہ زہرہ نے پمز ہسپتال میں معذور لڑکی سے زیادتی کے ملزم کو مختصر وقت میں حراست میں لینے پر وزیر مملکت طارق فضل چوہدری کے کردار کو زبردست خراج تحسین پیش کیا اورمطالبہ کیا کہ پمز میں معذور لڑکی سے زیادتی کے جرم میں پکڑے جانے والے ملزم کو پنجاب کے قانون کے تحت سزا دی جائے۔
ڈائری

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...