کیا قتل صرف دہشت گردی سے ہوتے ہیں یا صحت کی بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی سے ہونیوالی اموات بھی اس زمرے میں آتی ہیں؟ جب عوام کو مفت علاج کی سہولت جو کہ ریاست کا فرض ہے کی بجائے پیسے دے کر بھی علاج کی سہولتیں میسر نہ ہوں تو اس صورتحال کو آپ کیا کہیں گے۔ دور دراز کے شہروں میں سرکاری ہسپتالوں میں ضروری بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے اورجتنا خرچ ان سہولتوں کی تشہیر پر ہوتا ہے وہی ان سہولتوں کی فراہمی پر لگا دی جائے تو اس درد کا کسی حد تک مداوا ہو سکتا ہے۔لاہور کے کسی ہسپتال میں اگر کوئی مریض نامناسب علاج بیڈ کی عدم فراہمی پر زندگی کی بازی ہار جائے تو وزیراعلی کے پاس معطلی کا نسخہ کیمیا موجود ہے لیکن دور دراز کے شہروں میں مناسب سہولتوں کی عدم فراہمی کی وجہ سے روزانہ ایسی اموات ہوتی ہیں لیکن ان کا کوئی نوٹس نہیں لیتا اور لواحقین بھی اسے خدا کی رضا سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں۔
دوسری طرف جب دور دراز کے لوگوں کو اپنے ضلع سے لاہورآنا پڑتا ہے تو ان کو پیش آنے والی سفرکی دقتیں، سفر اور علاج کے اخراجات اور اور رہائش کے مسائل بہت سے لوگوں کی سکت سے باہر ہوتے ہیں جبکہ اکثریت تو اس قابل بھی نہیں ہوتی کہ وہ کسی بڑے شہر کا رخ کر سکیں۔ اس لئے وہ خود کو عطائی ڈاکٹروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ پچھلے دنوں اوکاڑہ میں ہونے والے ایک ایسے ہی واقعہ نے مجھے آواز اور قلم اٹھانے پر مجبور کردیا۔ جب ایک پچاس سالہ شخص احمد علی کو دل کا دورہ پڑا تو اسے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال لایا گیا تو بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی اس کا منہ چڑا رہی تھی۔ مختلف ٹیسٹو ں کے لئے نجی لیبارٹری کا سہارا لیا گیا جس کے بعد انہیں پھر سرکاری ہسپتال میں لایا گیا اس دوران مریض کی حالت اتنی بگڑ گئی تھی کہ انہیں مصنوعی سانس کے لئے 'ventilator' کی ضرورت پڑ گئی مگر پتہ چلا کہ پورے ضلع اوکاڑہ میں ایک بھی"ventilator" موجود نہیں تھا بلکہ ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ساہیوال بھی اس بنیادی سہولت سے محروم تھا اوراسی دوران مریض انتقال کر گیا لواحقین کو کہا گیا کہ خدا کو یہی منظور تھا لیکن کیا ریاست کی کوئی ذمہ داری نہیں تھی؟ضلع اوکاڑہ کی 1998 کی مردم شماری کے مطابق 22 لاکھ آبادی تھی جو کہ ایک محتاظ اندازے کے مطابق بڑھ کر 40 لاکھ سے تجاوزکرچکی ہے۔ حالیہ ہونے والی مردم شماری میں بھی اس کی وضاحت ہو جائیگی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس مردم شماری کی روشنی میں ہر ضلع کو اس کی آبادی کے تناسب سے صحت، تعلیم اورد یگر بنیادی سہولتیں میسر ہونگی یا تمام تر فنڈز میگا پراجیکٹ کی نذر ہو جائیں گے۔ ضلع اوکاڑہ میں اس وقت قومی اسمبلی کی5 نشتیں جبکہ صوبائی اسمبلی کی9 نشتیں ہیں اور ان پر منتخب ہونے والے نمائندے عوامی خدمت کا دعوی کرتے ہیں۔ اس ضلع سے ایک وزیراعلٰی، ایک سپیکر اور لا تعداد وفاقی اور صوبائی وزیروں کی ہے لیکن انہوں نے اپنے اپنے ادوار میں عوام کے بنیادی مسائل کی طرف توجہ نہیں دی جس کا واضع ثبوت اس ضلع کی پسماندگی ہے۔ ان میں سے کسی نے بھی صحت جیسے بنیادی مسئلہ کی طرف توجہ نہیں دی کیونکہ یہ منتخب نمائندے اور سرکاری افسران بڑے شہروں بلکہ بیرون ملک علاج کروانے کی بھی سکت رکھتے ہیں اور وفاقی وزیرخزانہ کی طرح کہتے ہیں کہ عوام کو دال مہنگی پڑتی ہے تو چکن کھا لیں یا شاہ فرانس کی طرح کہتے ہیں کہ عوام کو روٹی میسر نہیں تو کیک کھا لیں اس صورتحال میں بظاہر لگتا یہی ہے کہ اس سال ہونے والی مردم شماری سے جو فائدہ ہوگا وہ قومی اور صوبائی حلقوں میں اضافہ ہوگا اور سیاسی پارٹیاں اقتدار پر اپنی گرفت مظبوط کرنے کے لئے کچھ اور سیاسی خانوادوں کو نواز سکیں گی۔ اس افسوسناک صورتحال کے پیچھے بہت سے عوامل ہیں جن میں کرپشن، نااہلی، بے جا سیاسی مداخلت، بد انتظامی اور بے حسی بھی شامل ہے۔ صحت کے شعبہ کے لئے جو قلیل فنڈز مختص کئے جاتے ہیں ان کی اکثریت خرد برد کی نذر ہو جاتی ہے۔ دوسری بڑی وجہ بد انتظامی ہے۔ جبکہ صحت جیسے شعبے میں سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے غیر ضروری بھرتیاں کر دی جاتی ہیں تیسری بنیادی وجہ سیاسی قیادت، بیوروکریسی اور ٹیکنوکریٹس کی اس مثلث میں ہم آہنگی کا فقدان بھی ہے۔ سیاستدان کا پس منظر اور ہوتا ہے اور اس کے سامنے بیوروکریٹ کی مجال نہیں ہوتی کہ وہ اپنی رائے اور تجربہ کسی منصوبے میں شامل کرسکیں یہی صورتحال ٹیکنو کریٹ کی بیورو کریٹ کے سامنے ہے۔ جس نے تمام منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہوتا ہے۔
وہ لاکھ کہیں کہ فلاں ضلع کو اس سہولت کی زیادہ ضرورت ہے لیکن سیاستدان نے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ کونسا منصوبہ ایسا ہے جسپراسکی تختی لگے تا کہ آئندہ انتخابات میں اسے کیش کرا سکے اسے اس سے کوئی غرض نہیں کہ عوام کو صحت ، تعلیم اور دوسری بینادی سہولتیں میسر ہیں کہ نہیں اور نہ ہی وہ اس پر توجہ دیتا ہے کیونکہ کسی بھی وینٹی لیٹر پر اس کابورڈ نہیں لگا ہوتا۔ اور کریڈٹ کی اس چکی میں عوام پس جاتے ہیں۔ عوام کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی منتخب قیادت پر ان مسائل کے حل کے لئے دبائو ڈالیں کیونکہ ان کا انتخاب وہ کرتے ہیں اور ووٹ ڈال کر لمبی نہ تان لیں بلکہ گاھے بگائے ان کا احتساب کرتے رہیں شاید ان کے احساس دلانے پر ہی وہ ان مسائل کی طرف توجہ دے پائیں۔ دوسری طرف ایسے قوانین بنائیں جائیں جن سے سیاسی قیادت، منتخب نمائندے اور نوکرشاہی کو سرکاری ہسپتالوں سے ہی علاج کا پابند کیا جائے تب ہی یہ سرکاری ادارے عوام کی اصل خدمت کرسکیں گے اور یہی مناسب حل ہے ورنہ کئی احمد علی یوں ہی اللہ کو پیارے ہوتے رہیں گے اور کہا جائے گاکہ خدا کو یہی منظورتھا۔