ا لپوری( آ ئی این پی) متحدہ مجلس عمل کے صدر اور جمعیت علماء اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ستر سال گزرنے کے بعد بھی پاکستان میں اسلامی نظام نافذ نہیں ہوسکا ،اس ملک کے شہریوں کی اسلامی نظام مصطفی کی پیاس آج تک نہیں بجھ سکی اس ملک کے نظام چلانے والے جو اپنے اپ کو لبرل کہتے ہیں مادر پدر کی طرح آزاد زندگی گزارنے والے ہیں وہ اللہ کے نظام کی مطابق زندگی گزارنا نہیں چاہتے ،قرآن و سنت کی نظام کیلئے جنگ کر رہے ہیں ، آج ہماری اسٹیبلشمنٹ کیوں قران کا نظام نہیں لانا چاہتی ، اسلامی نظریانی کونسل کی سفارشات پر قانون سازی نہیں ہورہی ہیں ، قوم طاقت کے بغیر اسلامی نظام چاہتے ہیں ، امن میں بنیادی کردار علما ء کرام ادا کر رہے ہیں ۔ صوبے کے ساتھ زیادتی کی گئی اور خصوصی طور پر پشتونوں کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے ،یہ روشن خیالی نہیں ہے یہ جہالت ہے ، پاکستان کی سیاست ، دفاع ، معیشت امریکہ کی دبائو کے ماتحت ہے ، ہمیں امریکہ سے ازادی چاہئے، ملک میں عدم استحکام پیدا کی جارہی ہے ، بندوق کا کام ووٹ کے ذریعے آسانی سے کیا جاسکتا ہے ، متحدہ مجلس عمل کو ووٹ دینے سے ملک میں امن آجائیگا،مجلس عمل کی بحالی کا مقصد یہ ہے کہ ہم اسلام دشمن قوتوں کا مقابلہ کریں گے۔وہ شانگلہ میرہ میں محمد یار کے رہائشگاہ پر ان کے ساتھ تعزیت۔استقبالیہ اور الوچ پورن میں ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کر رہے تھے۔جلسہ عام سے جمعیت علماء اسلام کے صوبائی امیر مولانا گل نصیب خان ،صوبائی جنرل سیکرٹری مولانا شجاع الملک ، صوبائی ڈپٹی جنرل سیکرٹری و امیر ضلع شانگلہ مولانا راحت حسین اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔مقررین نے کہا کہ علماء کرام پاکستان کے وفادار ہیں اور یہی وجہ ہے کہ 2018میں پاکستان کا اختیار علماء کے ہاتھوں میں ہوگا ، پاکستان متحد رہے گا۔ عمران خان کو شرم کرنا چاہئے ، ناچ گانے کا محفل سجاتے ہیں جو کہ اسلام میں ممنوع ہے۔مغربی قوتیں مسلم ممالک پرظالمانہ رویہ سے اجتناب کریں ، اْمت مسلمہ پر جاری زیادتی کا خطرناک نتیجہ ہوسکتا ہے۔فاٹا کا فیصلہ قبائیلی عوام کے خواہشات کے مطابق کرنا چاہیے ۔ اس حوالے سے جمعیت علماء اسلام کا موقف شروع سے واضح ہے۔متحدہ مجلس عمل ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوکر کتاب کی نشان پر الیکشن لڑے گی ، متحد ہ مجلس عمل کی بحالی کا مقصد یہ ہے کہ ہم اسلام دشمن قوتوں کا مقابلہ کریں گے۔