نوبل انعام یافتہ پاکستانی طالبہ ملالہ یوسفزئی کا کہنا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے ملک چھوڑ کر نہیں گئی تھیں لیکن انہوں نے پاکستان کا دورہ اپنی مرضی سے کیا ہے۔ملالہ یوسفزئی حال ہی میں ساڑھے 5 سال بعد چار روزہ دورے پر پاکستان آئی تھیں، اس دورے کے حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار انہوں نے اپنی ایک بلاگ پوسٹ میں کیا۔20 سالہ ملالہ نے اپنے بلاگ میں لندن سے پاکستان کے سفر کا ایک ایک لمحہ تحریر کیا اور 5 سال قبل کے مشکل وقت کو بھی یاد کیا۔اپنے گھر کا دورہ کے عنوان سے لکھے گئے بلاگ میں ملالہ نے سب سے پہلے 9 اکتوبر 2012 کو ملک چھوڑنے کے حالات کو بیان کیا ہے۔ملالہ نے لکھا کہ 'جب میں نے ملک چھوڑا تو میری آنکھیں بند تھیں، میں برہنگھم کے ایک اسپتال میں انتہائی نگہداشت وارڈ میں زیر علاج تھی، اس وقت میرے ذہن میں یہی تھا کہ میں اپنے گھر میں ہوں'۔انہوں نے لکھا کہ مجھے وہ دن یاد ہے جب میں اپنے مطالعہ پاکستان کے پرچے کی تیاری کر رہی تھی اور اللہ سے دعا کر رہی تھی کہ میں کامیابی حاصل کروں۔ میں جلدی جلدی میں آدھا ادھورا ناشتہ کر کے اپنی دوست منیبہ کے ساتھ اسکول کے لیے نکل گئی تھی۔انہوں نے مزید لکھا، میں اپنی دوست کے ساتھ خوشی خوشی امتحان دے کر نکلی اور بس کا انتظار کرنے لگی، جس کے بعد وہ تاریک وقت آیا جب میں حملے کا نشانہ بنی۔ملالہ لکھتی ہیں کہ جب 31 مارچ 2018 کو وہ پاکستان جانے کے لیے تیاری کر رہی تھیں تو انہیں محسوس ہوا کہ جیسا بیتا ہوا کل ایک بار پھر ان کے سامنے آرہا ہے۔ملالہ نے لکھا، میں لندن سے دبئی اور دبئی سے اسلام آباد پہنچی تھی، جس کے بعد اسلا آباد سے ہیلی کاپٹر میں وادی سوات کا سفر کیا۔ اس دوران میں نے حسین وادی کے اونچے پہاڑ، ہریالی اور دلکش نظارے دیکھے اور ہر ایک منظر کو اپنے آئی فون میں قید کیا۔انہوں نے لکھا، مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میں ایک پرندے کی آنکھ سے سب مناظر دیکھ رہی ہوں۔ میں نے سوچا یہ سب تو میرے والدین نے بھی دیکھے ہوں گے، جب وہ مجھے سوات سے لے کر گئے تھے'، جس پر میرے والد نے جواب دیا کہ جب تمہاری آنکھیں بند تھیں تو ہماری بھی آنکھیں بند ہوچکی تھیں۔ملالہ کے مطابق جب مجھے 2012 میں گولی لگی تھی، اس کے بعد