کہاجاتاہے کہ سرمایہ کار کبوتر کی خصلت کے حامل ہوتے ہیں۔ اگرانہیںدانہ ڈالا جائے تو ابتداً اسے شبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور آنے سے کتراتے ہیں۔ لیکن پھر ان میں سیکوئی ایک کبوتر سبقت لیکر آگے آتا ہے اور اس کے خوشگوار تجربے کے بعد اسکے ساتھی بھی آنا شروع ہوجاتے ہیں اور پھر غول کے غول چلے آتے ہیں لیکن ایک ذرا سا خوف اس غول کو پھر سے اڑا دیتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی پتھر مار دے تو سارے کبوتر اڑ جائیںگے۔ پھر ان کو دوبارہ اعتماد میں لینا صبر آزما عمل ہوگا۔ ہم نے یہ مثال اس لئے دی ہے کہ ملک میںسرمایہ کاری کا ماحول اور سرمایہ کاروںکی حالت سے متعلق کچھ گفتگو قارئین کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔ سرمایہ کاری کسی بھی معیشت میں ترقی کا ایندھن ہے۔ سرمایہ کار اپنی زائد آمدنی اس امید پر کاروبار میں لگاتا ہے کہ اس سے منافع کی شکل میں اضافی آمدنی حاصل ہوگی۔ اس کے سامنے کچھ امیدافزاء مواقع ہوتے ہیں اور وہ اس ماحول کو بھی دیکھنا چاہتا ہے جس میں سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی ہورہی ہو اور ایک فضا ایسی بن گئی ہو جو لوگوں کو ترغیب دے رہی ہوکہ وہ جلدازجلد ان موقعوںکا فائدہ اٹھائیں۔ سرمایہ کار ایک دوسرے کو دیکھ کر آگے بڑھتے ہیں یا پیچھے ہٹتے ہیں۔
معاشرے کو سرمایہ کاری کی یوں ضرورت ہے کیونکہ اس سے روزگار کے مواقعے پید اہوتے ہیں، جو بلاواسطہ بھی ہوتے ہیں اور بالواسطہ بھی۔ یہ افادیت کیونکہ معاشرے کیلئے ضروری ہے، سرمایہ کاری کا فروغ ترقی کیلئے ناگزیر ہے۔ ایک ایسی معیشت جس میں نجی شعبہ سرمایہ کاری میں سبقت رکھتا ہو، جیسا کہ ہماری موجودہ کیفیت ہے، وہاں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ہم سرمایہ کاروں کی ضرورتوں کا خیال رکھیں اور ان کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کا اہتمام کریں۔ اس پس منظر میں ہم دیکھتے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت سرمایہ کاری کے عمل کو حرکت دینے میںکامیاب نہیں ہوسکی۔ نئی سرمایہ کاری، مقامی ہو یابیرونی دونوں جامد ہیں۔ ترقی کا عمل رکتا نظر آرہا ہے۔ ایشین ترقیاتی بینک، عالمی بینک اور آئی ایم ایف، تینوں نے اس بات کی پیشگوئی کی ہے کہ ترقی کی رفتار جس کا ہدف 6.2 فیصد رکھا گیا تھا وہ نصف سے بھی کم ہوگی۔ آئی ایم ایف تو یہ بھی کہہ رہا ہے کہ یہ سلسلہ آئندہ دو سال تک جاری رہے گا۔ ان حالات میں بیروزگاری میں اضافہ ہوگا اور معیشت کا عدم استحکام مزید ابتر ہو جائیگا۔ گذشتہ چند دنوں میں اسٹاک مارکیٹ کی جو کارکردگی رہی ہے وہ ماضی قریب کی بدترین کارکردگی ہے۔ بظاہر اس کی جلد اصلاح کے اسباب نظر نہیں آرہے اور اس سے سرمایہ کاری کے ماحول پر جو برے اثرات مرتب ہورہے ہیں وہ دیر تک قائم رہیں گے۔
اس مایوس کن صورتحال کی کئی وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ حکومت نے آغاز کار میں یہ غلط فیصلہ کیا کہ وہ معیشت کی بحالی کیلئے آئی ایم ایف کے پاس مدد مانگنے نہیں جائیگی۔ آئی ایم ایف ایسے مشکل حالات سے نکلنے کیلئے ایک مستند مددگار ادارہ ہے، جو امداد باہمی کے اصولوں پر تمام ممالک نے مل کر بنایا ہے اور اسکے چارٹر کے تحت اس کی ذمہ داری ہے کہ اگر کوئی رکن ملک بیرونی ادائیگیوں کے عدم توازن کا شکار ہے تو اس کی مدد کرے۔ یقیناً امداد کرتے وقت وہ اس بات کا خیال رکھتا کہ ان برائیوں کا تدارک کرے جو ان مشکلات کا باعث بنی ہیں۔ اس کا پروگرام ان شرائط پر مبنی ہوتا ہے جو معیشت کی بیماریوں کی اصلاح کیلئے ضروری ہیں۔ اس سیدھے راستے کو چھوڑ کر حکومت نے یہ عجیب و غریب فیصلہ کیا کہ وہ دوست ممالک سے عارضی مدد مانگے گی، جو اس کواچھی خاصی مقدار میں مل بھی گئی۔ لیکن اس مدد کی نوعیت بالکل وہی تھی جو ایک مریض کو درد کم کرنے کی دوا دے کر حقیقی علاج میں تاخیر کی جائے۔ وہ امداد ہم ختم کرچکے اور اب مزید ملنے کے امکانات نہیں ہیں، لہذا وزیر خرانہ نے اخباری نمائندو ں سے بات کرتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ آئی ایم ایف کی مدد کے بغیر ملک کا دیوالیہ نکل جائیگا۔
دوم یہ کہ وزیر اعظم اپنے انتخابی وعدوں کا پاس کرتے ہوئے چوروں اور ڈاکوؤں کو جیل میں ڈالنے کا اہتمام کررہے ہیں اور اس بات کا وقتاً فوقتاً اعادہ کرتے رہتے ہیں۔ ان کہنا ہے کہ وہ ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے جس کے بعد قرضوں کی معیشت کا خاتمہ ہوجائیگا اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائیگا۔ اکتوبر میں لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ لوٹی دولت واپس آجائے تو انہیں آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہوگی، ورنہ انہیں قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑیگا کیونکہ ایسا کرنا آئی ایم ایف کا مطالبہ ہوگا۔ متبادل کے طور پر دوست ممالک سے درخواست کررہے ہیں کہ وہ ہمارے مرکزی بینک میں اتنے پیسے رکھوادیں جس سے ہم اتنا وقت نکال لیں کہ لوٹی دولت واپس آجائے۔ یہ فارمولا کارگر ثابت نہ ہوا اور بالآخر آئی ایم ایف جانے کا راستہ اختیار کرنا پڑا، لیکن اس دوران بے یقینی اور عدم استحکام میں اضافہ ہوگیا۔ علاوہ ازیں ان باتوں کا بھی سرمایہ کاری ماحول پر کوئی مثبت اثر نہیں ہو ا ہے۔
سوم یہ کہ وزیراعظم ایف بی آر سے بھی سخت نالاں ہیں اور آئے دن وہ اس بات کا اعلان کرتے رہتے ہیں کہ وہ اس ادارے کو ختم کرکے ایک نیا ادارہ بنا دینگے۔ انہیں شاید اس بات کا کما حقہ علم نہیں ہے کہ ایسا کرنا تقریباً ناممکن ہے کیونکہ ایف بی آر کے ماتحت دو سروس گروپس میں افسروں کی تعداد کسی اور سروس گروپ سے کہیں زیادہ ہے۔ علاوہ ازیں اس میں نچلے درچے کے ملازمین کی تعداد چالیس ہزار سے زیادہ ہے۔ اس محکمے میں آدھے درجن سے زیادہ ٹیکس قوانین کا نفاذ ہوتا ہے،اس کے متبادل ایک نیا ادارہ کھٹرا کرنے کیلئے کئی دہائیاں درکار ہونگی اور بیشمار قانونی اور دعدالتی پیچیدگیوں سے گزرنا پڑیگا۔ دوسری جانب اس اعلان کے دو برے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ ایک یہ کہ اس سے ایف بی آر کے افسروں اور ملازمین کے اعتماد کو ٹھیس پہنچ رہی ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ جھنجھلاہٹ میں اپنے قاہرانہ اختیارات کو بھونڈے طریقے سے استعمال کررہے ہیں جس سے کاروباری حلقوں میں سراسیمگی پھیل گئی ہے۔ اس سے ہٹ کر بھی کہا جارہا ہے کہ تمام بڑے بزنس گروپس کے چیدہ چیدہ اراکین زیر تفتیش ہیں، جس سے سرمایہ کاری پر برے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
چہارم یہ کہ سیاسی درجہ حرارت مسلسل اونچا ہے۔ سیاسی لڑائیاں ایک ایسا ماحول پیدا کرتی ہیں جس سے ہزاروں خدشات جنم لیتے ہیں۔ سرمایہ کار مسلسل بے یقینی کا شکار رہتا ہے۔ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان کوئی مفاہمت کا راستہ کھلتا نظر نہیں آرہا۔ بجٹ کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے اور سیاسی گرما گرمی میں اضافہ ہوگا۔ بجٹ کی منظوری قومی اسمبلی دیتی لہذا اس ضمن میں حکومت کو کسی چیلنج کا سامنا نہیں ہوگا لیکن یہ موقع ایسا ہوتا ہے جس میں اپنے اندر کے ناراض ارکان، خصوصاً جو اتحادی ہوتے ہیں اپنی اہمیت کا احساس دلواتے ہیں۔ لیکن حزب اختلاف اس کے باوجود حکومت کیلئے مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔ بجٹ سے ہٹ کر حکومت کو معیشت کی درستگی کیلئے بہت سے نئے قوانین یا موجودہ قوانین میں ترامیم کرنی ہونگی۔ یہ سب کچھ سینٹ کی منظوری کے بغیر ممکن نہیں ہوگا، لہذا حزب اختلاف کے تعاون کی ضرورت ناگزیر ہے۔ آئی ایم ایف کا پروگرام اسطرح کے اقدامات تجویز کریگا لہذا حزب اختلاف کے تعاون کے بغیر ان اقدامات کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ممکن نہیں ہوگا۔
یہ وہ ماحول ہے جس میں معاشی بحالی کا عمل رک گیا تھا۔ اب جب حکومت نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کا پروگرام شروع کررہی ہے، تو امید کی ایک کرن پیدا ہوگئی ہے کہ شائد معاشی بحالی کا عمل سنجیدگی اور متانت کیساتھ شروع ہوجائیگا۔ اس پروگرام کا کلیدی نکتہ سرمایہ کاری کے ماحول کو پر کشش بنانا اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بحال کرنا ہوتا ہے۔ اگر حکومت اس پروگرام کو ثابت قدمی اور استقامت کیساتھ آگے بڑھائیگی تو نتیجتاً سرمایہ کاری کا عمل شروع ہوگا اور ترقی کی راہیں کھلتی چلی جائینگی۔ بدقسمتی سے آئی ایم ایف کے پروگرام پر عملدرامد کے لحاظ سے پاکستان کا ماضی کچھ شاندار نہیں رہا ہے۔ ہماری شہرت یہ رہی ہے کہ ہم ایک قسط کے بعد ڈھیر ہوجاتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ معیشت کی اس زبوں حال کیفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے، عمائدین حکومت اس بات کا ہتمام کرینگے کہ اس پروگرام کو مضبوطی سے پکڑ کر تکمیل تک لیکر جائیں تاکہ ملک ترقی کرے اور روزگار کے مواقعوں میں ہماری بڑھتی ہوتی آبادی کے لحاظ سے اضافہ ہو۔