اور عبدالعلیم خان پنجاب کابینہ میں واپس آ گئے ہیں۔ جہاں سے انہوں نے استعفیٰ دیا تھا وہیں سے عہدہ سنبھال رہے ہیں۔ تیرہ کے بعد وہ دوبارہ کابینہ کا حصہ بن رہے ہیں۔ علیم خان کی واپسی نے ثابت کیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے پاس پنجاب میں پارٹی اور حکومت کو سنبھالنے والا ان سے بہتر کوئی شخص نہیں ہے۔ علیم خان کی پنجاب کابینہ میں واپسی پر وزیراعظم عمران خان بھی مبارکباد کے مستحق ہیں کیونکہ انہیں بھی یہ احساس ہوا ہے کہ اس کے بغیر پنجاب میں بات نہیں بن سکتی۔ علیم خان صرف ایک وزیر ہی نہیں ہونگے بلکہ وہ حقیقی معنوں میں پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کا چہرہ ہوں گے۔ ان کی کابینہ میں واپسی سے پی ٹی آئی کے کارکنوں میں بھی امید پیدا ہوئی ہے۔وہ کارکن جنہیں وزراء نظر انداز کر رہے تھے اور ان کے جائز کام ہونا تو دور کی بات جماعت کے ووٹرز اور سپورٹرز کو ان کا جائز مقام بھی نہیں دیا جا رہا تھا۔ پنجاب میں عمران خان اور تحریک انصاف کا کھویا ہوا مقام اور پاکستان تحریک انصاف کی کم ہوتی مقبولیت کو بہتر بنانے میں علیم خان سب سے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ دوہزار اٹھارہ میں کابینہ میں شمولیت کے وقت انہوں نے اپنی کمپنیوں سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس وقت کابینہ میں شامل ہوتے اور اپنے کاروبار سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے انہوں نے موقف اختیار کیا تھا کہ اب وہ صرف نئے پاکستان اور پنجاب کی بہتری کے لیے کام کریں گے۔ یہ ایک اچھا عمل تھا اور حقیقی معنوں میں ایسے فیصلوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔
پنجاب میں تحریک انصاف کو عوامی سطح پر منظم کرنے اور اعتماد کی فضا کو بہتر بنانے میں علیم خان سے بہتر کام کوئی نہیں کر سکتا۔ وہ ایک زبردست منتظم ہیں اور گذشتہ ایک برس میں انہوں نے وزارت سے دور رہتے ہوئے جس بہترین انداز میں مخالفین کو حمایتی اور دشمنوں کو دوست بنایا ہے وہ قابل تعریف ہے۔
علیم خان میں ایک اچھے سیاست دان کی خوبیاں پائی جاتی ہیں اور اچھا سیاست دان وہی ہوتا ہے جو گفتگو کے ذریعے مسائل حل کرنے اور اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک وہ جماعت کی اعلیٰ سطح کی قیادت اور پنجاب میں پاور گیم میں شامل اہم کھلاڑیوں کے لیے قابل قبول نہیں تھے لیکن مختصر وقت میں انہوں نے ایسے تمام افراد کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے محنت کرتے ہوئے ہر سطح پر تعلقات کو بہتر بنایا ہے۔ ایک دو اہم لوگ اب بھی ان سے ناخوش ضرور ہیں لیکن اکثریت نے علیم خان کی واپسی پر نیک تمناؤں کا اظہار کیا ہے۔ اب کابینہ میں واپسی کے بعد وہ زیادہ پر اعتماد اور متحرک انداز میں اپنا کام کر سکیں گے۔ اس وقت صرف پی ٹی آئی ہی نہیں صوبے کو بھی ایک سمجھدار، مدبر، انتھک محنت، تعمیری سوچ اور فکر کے ساتھ کام کرنے والے شخص کی ضرورت تھی۔ حالات نہایت مشکل ہیں لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ علیم خان ایسے ہی مشکل حالات سے لڑتے لڑتے سیاست کے میدان میں کامیاب ہوئے ہیں۔ جس طرح انہوں نے سردار ایاز صادق کے مقابلے انتخاب کی جنگ لڑی ہے یہ ان کا ہی خاصہ ہے۔ وہ حقیقی معنوں میں جنگجو شخصیت ہیں۔ پی ٹی آئی کے بعض حلقے ان پر دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم اور امیدواروں کے انتخاب پر اعتراض کرتے ہیں۔ ان سب کے لیے پیغام ہے کہ جن اْمیدواروں کا انتخاب علیم خان نے کیا تھا ان سے بہتر امیدوار سامنے لا سکتے ہیں تو لے آئیں۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کو منظم کرنے اور اسے عوامی سطح پر مقبول بنانے میں علیم خان کا کردار نہایت اہم رہا ہے۔ اس کامیابی کا راز عوام سے جڑے رہنا، اپنے ووٹرز کو عزت دینا، ان کے جائز کاموں کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا اور حلقوں میں کام سیاسی وابستگیوں کے بجائے ضرورت کو معیار بنا کر نمٹانا ہے۔
پنجاب میں مسائل انتہائی سنجیدہ نوعیت کے ہیں۔ عوام حکومت سے تنگ ہیں، اشیاء خوردونوش کی قیمتیں اور پنجاب کابینہ میں شامل وزراء کی اہم کاموں میں عدم دلچسپی کے باعث پی ٹی آئی کا ووٹر بھی مایوس ہو رہا ہے۔ ووٹرز کو دوبارہ متحرک کرنے اور بنیادی مسائل حل کیے بغیر اعتماد کا بحال ہونا ممکن نہیں ہے۔ پنجاب کابینہ میں دوبارہ واپسی پر عبد العلیم خان کہتے ہیں کہ اپنے قائد عمران خان کے اعتماد پر شکر گذار ہوں اور اِس اعتماد پر پورا اْترتے ہوئے وزارت کی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کروں گا۔لوگوں کے مسائل کاحل اور مشکلات کا خاتمہ میری اولین ترجیح ہے۔ پنجاب حکومت کی مضبوطی کیلئے تمام کوششیں بروئیکارلاؤں گا۔دعاہے کہ اللہ ملک کو درپیش موجودہ صورتحال سے جلد نکالے۔
دوسری طرف سپریم کورٹ نے حکومت کی کارکردگی پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے ابھی تک کچھ بھی نہیں کیا، وزراء اور مشیروں کی فوج ہے، کام کچھ نہیں، مشیروں کو وفاقی وزراء کا درجہ اور مبینہ طور پر کرپٹ لوگوں کو مشیر رکھا گیا۔ کابینہ کا حجم دیکھیں، 49 ارکان کی کیا ضرورت ہے؟ اتنی کابینہ کا مطلب ہے کہ وزیراعظم کچھ جانتا ہی نہیں۔
کرونا وائرس کے بارے کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا عوامی مسائل کیا ہیں، ہمارے وسائل کیا ہیں اور ہمیں کن اقدامات کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم یہ بہت اچھے طریقے سے جانتے ہیں لیکن ابھی تک حکومت اس اہم ترین مسئلے پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن ایک صفحے پر نہیں ہیں، صوبائی حکومتوں میں اختلاف ہے، وفاق اور صوبوں میں اختلاف ہے۔ یہ صورت حال کورونا وائرس کی تباہ کاریوں سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ اس صورت حال میں قوم کی نظریں منتخب وزیراعظم عمران خان پر ہیں۔ وزیراعظم کو یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ انہیں اللہ نے قوم کی سربراہی اور قیادت کا موقع دیا ہے تو قیادت فرمائیں، سخت اور بہتر فیصلے کریں، سیاسی جماعتوں سے خود بات کریں، سب کو ساتھ ملائیں، کسی کی انا انسانی جانوں سے زیادہ اہم نہیں ہو سکتی نا ہی معیشت انسانوں سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ یہ معیشتیں انسان ہی بلندیوں پر لے کر جاتے ہیں معیشت کو دوبارہ اٹھانے کے لیے بھی انسانوں کی ضرورت ہو گی اس لیے سب سے پہلے انسانوں کو بچانے کے لیے کام کریں۔ وزیراعظم یہ ضرور سوچیں کہ ہر وقت صرف ان کے قریبی لوگ ہی سب سے بہتر مشورہ نہیں دے سکتے۔ زمینی حقیقت جاننے والوں اے بھی مشورہ کریں۔ عوام نے جنہیں ووٹ دیا ہے ان سے بات کریں اور قومی اتفاقِ رائے پیدا کریں۔ عالمی وبا نے آپکو اپنی پالیسیوں، طرز عمل، طرز فکر اور کام کرنے کے انداز پر نظر ثانی کا موقع فراہم کیا ہے اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے باہر نکلیں اور قوم کی قیادت کریں۔ آپ منتخب وزیراعظم ہیں قوم آپ کی طرف دیکھ رہی ہے ہر حال میں ذمہ داری آپ پر ہے۔