اسلام آباد (چو ہدری اعظم گل/ خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کی کار کردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ہٹانے کی آبزرویشن دے دی۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کئی کابینہ ارکان پر جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں۔ حکومتی ٹیم ان چیمبر بریفنگ میں پانچ میں سے ایک بھی سوال کا جواب نہیں دے سکی، ان حالات میں بھی کچھ لوگ پیسہ بنا رہے ہیں، کرپٹ عناصر کو لیڈ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا حفاظتی اقدامات کر کے ضروری کاروبار چلنے دیا جائے۔ سپریم کورٹ میں کرونا وائرس ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربرا ہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سمجھ نہیں آ رہی کس قسم کی ٹیم کرونا پر کام کر رہی ہے، اعلی حکومتی عہدیداران پر سنجیدہ الزامات ہیں۔ ظفر مرزا کس حد تک شفاف ہیں، کچھ نہیں کہ سکتے۔ ملک میں معاونین خصوصی کی پوری فوج ہے جن کے پاس وزرا کے اختیارات ہیں۔ حکومتی کابینہ پچاس رکنی ہوگئی، اس کی کیا وجہ ہے؟ کئی کابینہ ارکان پر جرائم میں ملوث کے ہونے کے مبینہ الزامات ہیں۔ ڈاکٹر ظفر مرز ا بھی نیٹ اینڈ کلین ہیں یا نہیں معلوم نہیں، عدالتی ریمارکس پر اٹارنی جنرل نے کہا عدالت کی آبزرویشن سے نقصان ہوگا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا ریمارکس دینے میں بہت احتیاط برت رہے ہیں۔ بریفنگ میں عدالت کو حکومتی ٹیم نے صرف اعدادوشمار بتائے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کوئی ملک کرونا سے لڑنے کیلئے پیشگی تیار نہیں تھا، چیف جسٹس نے کہا قانون سازی کے حوالے سے حکومت کا کیا ارادہ ہے؟ کیا ایمرجنسی سے نمٹنے کیلئے پارلیمان قانون سازی کرے گی؟ کئی ممالک ایمرجنسی سے نمٹنے کیلئے قانون سازی کر چکے، جسٹس قاضی محمد امین نے کہا سماجی فاصلہ رکھنے کے حکومت کیا عمل کرا رہی ہے؟ جمعہ کے اجتماع پر اسلام آباد میں جو ہوا کیا کسی کو نظر آیا؟ اٹارنی جنرل نے کہا سماجی فاصلے کیلئے عوام کو خود ذمہ داری لینا ہوگی، پولیس یا فوج 22 کروڑ عوام کو فاصلے پر کیسے زبردستی کرا سکتی ہے، چیف جسٹس نے حکومتی کار کردگی پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ ریاستی مشینری کو اجلاسوں کے سوا بھی کام کرنے ہوتے ہیں کیا ملک بند کرنے سے پہلے اس کے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔ حکومتی مشیران اور وزرا مملکت پر کتنی رقم خرچ کی جا رہی ہے ان مشیران وزرا پر اتنی رقم کیوں خرچ کی جا رہی ہے؟ مشیران معاونین کابینہ پر حاوی ہوتے نظر آ رہے ہیں، یہ کیا ہو رہا ہے۔ کابینہ کے فوکل پرسن بھی رکھے گئے مشیران ہیں وزیراعظم کی کابینہ غیر موثر ہوچکی ہے۔ معذرت کے ساتھ لیکن وزیراعظم نے خود کو الگ تھلگ رکھا ہوا ہے۔ کیا پارلیمنٹیرینز پارلیمنٹ میں بیٹھنے سے گمراہ رہے ہیں۔ وفاقی صوبائی حکومتیں اپنے اپنے راستے اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ہر سیاستدان اپنا علیحدہ بیان دے رہا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا عدالت سیاسی لوگوں کے بیانات پر نہ جائے وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی صلاحیت کے مطابق تدابیر اختیار کر رہی ہیں۔ چیف جسٹس اتنے بڑے مینوفیکچررز موجود ہیں کیا وہ حفاظتی کٹس نہیں بنا سکتے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا یہ ایشو عوام کی آزادی اور صحت کا ہے۔ ہسپتالوں میں ڈاکٹر کو غذا بھی غیر معیاری فراہم کی جا رہی ہے۔ جوڈیو دیکھی ڈاکٹرز کھانے کی بجائے عام آدمی سے حفاظتی کٹس مانگ رہے ہیں۔ ڈاکٹرز اور طبی عملے کو حفاظتی کٹس کی فراہمی ترجیح ہونی چاہئے، ملک میں کرونا کی ٹیسٹ کی استعداد کار بڑھانے کی ضرورت ہے، سماجی فاصلے کے لیے لوگوں کو آگاہی کون دے گا؟، ملک میں معیشت کا پہیہ چلانا ہوگا، ہم لوگوں کو بھوکا مرنے نہیں دے سکتے، چیف جسٹس نے کہا حکومت چاہے سو دفعہ لاک ڈاون کرے عدالت کو کوئی ایشو نہیں، لاک ڈاون لگانے سے پہلے حکومت کے پاس پلان بھی ہونا چاہیے، ایڈوکیٹ جنرل سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا سندھ حکومت نے گیارہ یوسیز کو سیل کردیا۔ کن بنیادوں پر ان یوسیز کو سیل کیا گیا۔ وڈیوز میں پولیس والے راشن کھینچ کھینچ کر لے جا رہے ہیں۔ سندھ حکومت نے 8 ارب کا غریبوں میں راشن تقسیم کیا لیکن غریب کو پتہ بھی نہیں چلا۔ چیف جسٹس نے کہا سندھ حکومت پی پی آئی کس ریٹ پر خرید رہی ہے، ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا پی پی آئی کے مختلف نرخ ہیں، اب سندھ میں مقامی سطح پر بھی کرونا سے بچائو کی حفاظتی کٹس کی تیاری شروع ہو چکی۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہاکہاں اور کس کو راشن فراہم کیا، سندھ پولیس تو جے ڈی سی والوں کو لوٹ رہی ہے،10 روپے کی چیز دیکر چار وزیر تصویر بنانے کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں، سندھ گٹر کا ڈھکن لگانے چار لوگ کھڑے ہو کر تصویر بناتے ہیں، سندھ میں راشن تقسیم کرنے کا کیا طریقہ کار ہے کوئی کلپ ہے کہاں سے راشن خریدا کہاں دیا۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا ڈی سی کے ذریعے راشن تقسیم کیا جاتا ہے، راشن تقسیم کرنے والے زیادہ تر لوگ ڈیلی ویجرز ہیں، جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا یا ایک ہاتھ سے لیا دوسرے ہاتھ سے دینے والا کام یہاں بھی کیا۔ سندھ حکومت بتائے کہاں سے راشن خریدا کہاں دیا۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا 5 لاکھ 4 ہزار 80 خاندانوں کو 15 دن کا راشن دیا، ہر خاندان میں افراد کا تخمینہ لگا کر راشن دیا۔ چیف جسٹس نے کہا پھر تو ایک من آٹے کی بوری چاہیے ہو گی۔ ایک خاندان کے لیے، آپ نے راشن دینے کا کہہ دیا ہم نے سن لیا، اب دیکھتے ہیں قوم مانتی ہے یا نہیں، سندھ میں لوگ سڑکوں پر ہیں، سندھ کے لوگ کہہ رہے حکومت نے ایک ٹکہ بھی نہیں دیا، یہ سوالات صرف سندھ کے لیے نہیں بلکہ چاروں صوبوں کے لیے ہیں۔ کے پی تو راشن کے بجائے نقد رقم بانٹ رہا ہے۔ چیف جسٹس نے ڈاکٹر ظفر مرزاکو ہٹانے کے حوالے سے آبزرویشن دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر ظفر مرزا کے کام سے مطمئن نہیں، طفر مرزا سے مطمئن نہیں ہیں، آج ظفر مرزا کو عہدے سے ہٹانے کا حکم دیں گے، اٹارنی جنرل نے کہا اس موقع پر ظفر مرزا کو ہٹانا بڑا تباہ کن ہوگا، آدھی فلائٹ میں ظفر مرزا کو تبدیل نہ کریں، تمام آبزویشنز حکومت کے سامنے رکھ دوں گا۔ عدالت ظفر مرزا کا معاملہ حکومت پر چھوڑ دے، چیف جسٹس نے کہا ایک وقت تھا ملکی معیشت کی بنیاد صنعتوں پر تھی، اب صنعتیں گودام بن چکی ہیں۔ ملک میں صنعتیں بند ہونے کی پروا پارلیمان کو ہے نہ حکومت کو، نجی سرمایہ کاری نہیں آ رہی تو حکومت خود صنعتیں لگائے۔ آج وزیراعظم قرض واپسی کیلئے مہلت کی اپیل کر رہے، اٹارنی جنرل نے کہا نیشنلائزیشن سے صنعتوں کو نقصان ہوا جو آج بھی بھگت رہے ہیں۔ وزیراعظم ایماندار ہیں، اس میں کوئی شک نہیں۔ ملک پر پہلے بہت تجربے ہو چکے ہیں۔ اس بار ملک نقصان کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ چیف جسٹس نے کہا وزیراعظم کی ایمانداری پر کوئی شک و شبہ نہیں۔ وزیراعظم کے پاس صلاحیت ہے کہ کام کے دس بندوں کا انتخاب کر سکیں۔ ذرا سا دبائو آتے ہی ادھر کا مہرا ادھر لگا دیا جاتا ہے۔ شاید یہ معلوم نہیں کہ اگلا مہرا پہلے ہی لگائے جانے کیلئے تیار بیٹھا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا خدشہ ہے ہم یہ آخری موقع بھی ضائع نہ کر دیں۔ پارلیمان کا اجلاس بلانے میں کیا ڈر ہے؟ عدالت پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے کا حکم نہیں دے سکتی، پارلیمان نے ہی اس مسئلے کو حل کرنا ہے۔ روز روز بولنے والے سیاستدان اب بالکل خاموش ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا عدالت کی آبزرویشن سے حکومت کو آگاہ کروں گا، کسی کی خاموشی پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ زیادہ لوگ اپنا کام کر رہے ہیں۔ گندے انڈے تھوڑے ہیں۔ سویلین ہو یا فورسز سب اپنی کوشش کر رہے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا سندھ حکومت کے سوا سب حکومتوں کی تفصیلات ہمارے پاس ہیں۔ چیف جسٹس کچھ لوگ ایسے حالات میں بھی پیسہ بنا رہے ہیں۔ کرپٹ عناصر کو لیڈ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی زندگی بچانے کے معاملات میں بھی پیسے کھائیں جائیں تو مقصد ختم ہو جاتا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاحفاظتی اقدامات کرکے ضروری کاروباری چلنے دیا جائے، معیشت پہلے ہی کمزور ہے، لوگوں کو کھانے پینے سے محروم نہیں کیا جا سکتا، انشا اللہ ملک اس مشکل وقت سے نکل آئے گا، دوران سماعت ڈاکٹرزکے نمائندے بھی عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ پی ایم ڈی سی کے کام نہ کرنے کے باعث ملک میں ڈاکٹرز کی رجسٹریشن کا عمل بھی رک چکا ہے۔ کئی ڈاکٹرز بیمار ہوئے اور دو کی موت بھی ہو چکی تاہم حکومت کے پاس ڈاکٹرز کے اس سارے عمل میں کوئی پلان نہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا سب کو اپنے فرائض ادا کرنے چاہئے۔ شرائط سے پھر نظام نہیں چلتا کیس کے اختتام پر عدالت نے حکم میں قرار دیا کہ کراچی میں گیارہ یونین کونسلز سیل کرنے کی ٹھوس وجہ نہیں بتائی گئی، سندھ حکومت کو سیل شدہ یونین کونسلز میں متاثرہ افراد کی تعداد کا بھی علم نہیں۔ سیل ہونے والی یونین کونسلز میں کھانا اور طبی امداد فراہم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں۔ سندھ حکومت آٹھ ارب کا راشن تقسیم کرنے کے شواہد بھی نہ پیش کر سکی، سندھ حکومت کی کارکردگی افسوسناک ہے۔ سندھ بھر سے کھانا نہ ملنے کی شکایت پہنچ رہی ہیں۔ عدالت کو بتایا جائے کہ سندھ حکومت نے کتنا راشن کس کو دیا بتایا جائے، راشن کہاں سے اور کتنے میں خریدا گیا، عدالت نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ڈاکٹرز کی ضروریات پوری کریں، ڈاکٹرز کو کھانا نہ ملنے کی شکایات کے بھی فوری ازالہ کیا جائے۔ اسلام آباد انتظامیہ اور پنجاب حکومت سے بھی کرونا سے نمٹنے اور امدادی کام کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے عدالت نے حکومت سے آج ہونے والے اعلی سطحی اجلاس کے فیصلوں کی تفصیلات طلب کر لیں۔ سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ دوران سماعت عدالت کو بتا یاگیا کہ پنجاب حکومت کی جانب سے صوبوں کے درمیان سامان کی ترسیل پر کوئی پابندی عائد کی گئی ایسی پابندی قانون سے ہٹ کر نہیں لگائی جا سکتی اس لئے اس معاملے میں جاری کیے گئے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دے رہے ہیں۔ عدالت کا تمام حکومتوں کو سینٹری ورکرز کو حفاظتی یونیفارم دینے کا بھی حکم دیا۔ پی ایم ڈی سی کا معاملہ عدالت میں ہے اس پر الگ سے فیصلہ کرینگے، کیس کی مزید سماعت آئیندہ پیرکو ہوگی۔