پنجاب کی آواز خاموش ہو گئی

لوک گائیکی کے حوالے سے شوکت علی کا نام اہم ہے۔ ابتدا میں انھوں نے اردو غزلیں گائیں۔ جب پنجابی میں گایا تو انھیں ’’پنجاب کی آواز‘‘ کہا جانے لگا۔ یہ آواز 2 اپریل کو خاموش ہو گئی۔ گائیکی کے ساتھ ساتھ شوکت علی نے شاعری بھی کی اور ان کے دو پنجابی شعری مجموعے شائع ہوئے۔ ’’آہلنے‘‘ اور ’’نکواں‘‘ ۔ 95 فی صد دھنیں ان کی خود ترتیب دی ہوئی ہوتی تھیں۔ ان کا لکھا ہوا اور ان کی دھن میں بنایا ہوا یہ گانا ہر ایک کی زبان پر ہے:۔؎ 
کدی تے ہس بول وے 
نہ جند ساڈی رول وے 
شوکت علی سے رابطہ 1970ء میں ہوا۔ یہ نصف صدی کا قصہ ہے۔ ان کے کس کس پہلو کو بیان کروں۔ میں نے ان کے اعزاز میں متعدد تقریبات منعقد کیں۔ دو تین مرتبہ وہ میرے فقیر خانے پر اپنے بیٹے عمران شوکت کے ہمراہ تشریف لائے۔ 2017ء میں میری سوانح حیات ’’میرا عہد جو میں نے لمحہ لمحہ جیا‘‘ شائع ہوئی۔ اس میں ایک باب شوکت علی کے بارے میں ہے۔ اس کتاب کی تعارفی تقریب اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کے صاحبزادے اثیر احمد خان نے اپنے والدین کی رہائش گاہ پر کرائی۔ شوکت علی اس تقریب میں اپنے بیٹے امیر شوکت علی کے ہمراہ شریک ہوئے۔ شوکت علی نے اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ مجھے پہچان دینے والے تنویر ظہور کے اعزاز میں یہ تقریب ہے۔ یہ بابرکت محفل دو عظیم شخصیات اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کی رہائش گاہ پر ہو رہی ہے۔ اشفاق صاحب نے مجھے ہمیشہ محبت دی ہے۔ مجھے مادھو اورجادو گر گائیک کہا۔ ان الفاظ نے میرے گانے کو عزت دی۔ تنویر نے میرے بارے میں بھی لکھا۔ اس تحریر میں میری پوری ترجمانی کی گئی ہے۔ وہ محبت کا مسافر ہے۔ اس نے جو محسوس کیا، دیانت اور سچائی سے لکھ دیا۔ یہ اعزاز بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتا ہے‘‘ 
شوکت علی نے میاں محمد بخش کے کلام ’’سیف الملوک‘‘ کی دھن بنائی جو آج دنیا بھر میںرائج ہے۔ میاں محمد بخش کا کلام انھوں نے ’’بھیرویں‘‘ میں آسان فہم کر کے گایا۔ صوفیاء کرام کی شاعری کو انھوں نے اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا تھا۔ ریٹیگس روڈ (نزد داتا دربار) پر صوفی شاعر شاہ حسین کے نام سے ’’شاہ حسین کالج‘‘ کا قیام عمل میں آیا تو یہاں ’’پنجابی ادبی مجلس قائم کی گئی جس کا سیکرٹری راقم الحروف کو چنا گیا۔ 21اپریل 1970ء کو پنجابی مجلس کے زیر اہتمام شاہ حسین کالج میں شوکت علی کے ساتھ شام منائی گئی۔ صدارت مسعود رانا نے کی۔ اس محفل کو ’’لوک سنگیت‘‘ کا نام دیا گیا ۔ شوکت علی کے ساتھ ایک شام مشتاق بٹ ایڈووکیٹ نے منائی۔ جس کا اہتمام راقم نے کیا۔ اس کی صدارت اس وقت کے سپیکر پنجاب اسمبلی شیخ رفیق احمد نے کی۔ شوکت علی کھیتوں اور کھلیانوںکی کھلی فضاؤں کے فنکار تھے۔ خدا نے انھیں بڑی اور بلند آواز عطا کی تھی، انھوں نے ماہیے، ڈھولے، ہیر، سیف الملوک، مرزا صاحباں، پنجابی بولیوں اور فصلوں کے گیتوں کو ان کی اصلی دھنوں کے ساتھ پیش کیا۔ ان کی بھیرویں میںگائی ہوئی غزل ’’تیرے غم کو جاں کی تلاش تھی‘‘ اور باگشیری میں گائی ہوئی غزل ’’قربتوں میں بھی جدائی کے زمانے مانگے‘‘ بہت مقبول ہوئیں۔ شوکت علی کا کہنا تھا کہ میں آخر دم تک پنجابی صوفی شاعروں کا کلام گاتا رہوں گا۔ پنجابی ز بان، ثقافت اور لوک گیتوں کے ساتھ شوکت علی کا پیار دکھاوا نہیں بلکہ حقیقی تھا۔ یہ بات ان کے اس یقین کا حصہ تھی کہ جس طرح ماں کا احترام ہر انسان پر فرض ہے، اسی طرح ماں کی زبان کی خدمت کرنا ہر فنکار کا پہلا فرض ہے۔ 
شوکت علی کا کہنا تھا کہ میں نے دنیا کے متعدد ممالک میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا مگر میں اپنے وطن میںمرنا اور یہیں دفن ہونا چاہوں گا۔ میری خواہش ہے کہ میرے دوست احباب جہاں بھی ہوں، وہ میری موت پر آنسو ضرور بہائیں۔ چاہے پانچ منٹ کے لیے ہی سہی، شوکت علی کی یہ خواہش ان کے احباب نے پوری کی۔ وہ ہمارے دلوں میں ہمیشہ رہیں گے۔
شوکت علی کا شعر ہے:۔؎ 
دو نیناں دے بوہے کھلے آ جاویں 
اک پل تیری یاد نہ بھلے آ جاویں 
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن