لفافے شفافے!

ویسے تو کالم لکھنے کیلئے میرے پاس پورے ایک ہفتے کا کھلا ڈُھلا وقت ہوتا ہے لیکن اسکے باوجود میرا معمول ہے کہ میں اپنا کالم چھپنے سے ایک آدھا دن پہلے ہی ای میل کرتا ہوں۔اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ بعض ’’نوکری پیشہ‘‘ کالم نگاروں کی طرح میں بھی اس عرصے میں اپنے ’’مالکوں‘‘ کی طرف سے خاص ہدایات یا ’’پکے پکائے‘‘ یعنی ’’ریڈی میڈ‘‘ کالم کا انتظار کرتا ہوں ۔دراصل مجھے سیاسی صورتحال پرحکومت کے حق میں یا مخالفت میںخود ساختہ دانشورانہ قسم کے کالموں کی بجائے سماجی موضوعات پر ہلکے پھلکے انداز کے کالم لکھنا زیادہ پسند ہے۔ایسے موضوعات چونکہ سدا بہار ہوتے ہیں لہذا اخبار میں چھپنے سے پیشتر ان پر کسی وقت بھی لکھا جائے یا چھپنے کے بعد انہیں کسی وقت بھی پڑھا جائے اپنی اہمیت کے اعتبار سے انکی تازگی اور افادیت کم نہیں ہوتی۔اسکے باوجود میرے جیسے سُست الوجود بندے کیلئے ہفتہ بھر میں ایک کالم لکھنا بھی کسی طرح پہاڑ کی چوٹی سر کرنے سے کم نہیں ہے۔سب سے پہلے تو مجھے یہی سمجھ نہیں آتی کہ کس موضوع پر لکھوں اس لئے کہ ہمارے ہاں سماجی ناہمواریاں اس قدر زیادہ ہیں کہ ان پر لکھنے کیلئے کسی ایک کا انتخاب کرنا انتہائی دشوار ہوجاتا ہے۔کسی بار شومئی قسمت اگر کوئی اچھا سا موضوع سوجھ بھی جائے تواپنی کم علمی کے باعث دو سے تین لائنیں لکھنے کے بعد قلم اور ہمت دونوں جواب دے جاتے ہیں۔رہی سہی کسر وقفے وقفے سے موبائل فون کی ’’ٹوں ٹوں‘‘ سے پوری ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں واٹس ایپ میسج دیکھنے کیلئے بار بارخیالات کا تسلسل ٹوٹ جاتا ہے۔میرے ساتھ شاید کبھی کبھار ہی ایسا ہوتا ہے جب کالم لکھنے کیلئے مجھے اچھی خاصی ورزش نہ کرنی پڑی ہووگرنہ ایک عام سا کالم لکھ کر بھی ہفتہ بھر دماغ میں ’’کھلیاں‘‘ پڑی رہتی ہیں۔گذشتہ روز مجھے پھراسی ’’پسوڑی‘‘کا سامناتھا ،ذہن پر جیسے کوئی جالا سا لگ گیا سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کیا کروں۔ابھی اسی شش وپنج میںلیپ ٹاپ سامنے رکھے اپنی منجمد سوچوں میں روانی پیدا کرنے کی کوشش کر رہاتھا کہ ایک جھٹکے سے دروازہ کھلا اور شاطر اپنی تمام تر شیطانیوں کے ساتھ بغیر اجازت کے میرے کمرے میں آن دھمکا۔ میں نے اس سے جلد جان چھڑانے کیلئے برا سا منہ بنا کراس کا استقبال کیالیکن وہ ’’شیر کا بچہ‘‘ میرے اس سرد روئیے کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے میرے سامنے رکھی ہوئی کرسی پر ٹانگیں لمبی کر کے بیٹھ گیا اور میری طرف شوخی سے دیکھتے ہوئے ایک آنکھ دبا کر کہنے لگا’’سنائو شہزادے کون سی فلم دیکھ رہے ہو‘‘۔میں نے کہا ’’ میں تمہاری طرح اتنا فارغ نہیں ہوں کہ ہر وقت لیپ ٹاپ پر فضول میںفلمیں دیکھتا رہوں‘‘۔کہنے لگا’’اچھا تو پھر کیا لیپ ٹاپ پرمیری نہ ہونے والی بھابھی کو شادی کی درخواست لکھ رہے ہو‘‘۔میں نے لیپ ٹاپ کی سکرین پر نظریں جمائے ہوئے کہا’’میرا وقت ضائع مت کرو میں کالم لکھ رہا ہوں‘‘۔ ’’کالم یا اخلاقی مضمون؟‘‘ اس نے شرارت بھری مسکراہٹ سے کہا۔ میں نے جان چھڑانے والے لہجے میں اسے کہا ’’تمہاری مہربانی مجھے تنگ نہ کرو پہلے ہی مجھ سے کچھ لکھا نہیں جارہا ‘‘۔ شاطر ایک دم سنجیدہ لہجے میں کہنے لگا’’اگر تم چاہوتو اس سلسلے میںبغیر کسی لالچ کے میں تمہیں کچھ اہم ٹِپس دے سکتا ہوں‘‘۔میں نے چڑ کر کہا’’میں نے عرض کیا ہے کہ میں کالم لکھ رہا ہوں کسی کو ’’لو لیٹر‘‘نہیں لہذا تمہاری پیشکش کا شکریہ اور تمہاری بڑی مہربانی ہوگی اگر تم اگلے تین چار گھنٹے کیلئے مجھے اکیلا چھوڑ دو تاکہ میں پوری یکسوئی سے کالم لکھ سکوں‘‘۔اس پر وہ کہنے لگا’’جگر! تمہیں اچھی طرح پتا ہے مجھے اس طرح تمہارے کمرے سے بڑے بے آبرو ہوکر جانے سے کوئی فرق نہیں پڑیگا اس لئے کہ میں یہاں سے اُٹھ کر سیدھا جذباتی کے پاس جائوں گا اور پھراس کے کان کھائوں گا، تُو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی ۔البتہ یہ بات میں نے پوری سنجیدگی سے کی ہے کہ میں تمہیں ایک ’’کار آمد‘‘ کالم لکھنے کیلئے چند گُر کی باتیں بتا سکتا ہوں‘‘۔میں نے طنزیہ انداز میں کہا ’’تمہیں پتا بھی ہے کالم ہوتا کیا ہے‘‘۔اس پر وہ بڑا پکا سا منہ بنا کر کہنے لگا ’’ آپکی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ مجھے نہ صرف کالم کا پتا ہے بلکہ کئی ایک بڑے بڑے اخباری رپورٹروں، کالم نگاروں اور ٹی وی اینکروں کا بھی پتا ہے کہ انکے پاس کیا گیدڑ سنگھی ہے اور یہ کیسے لکھتے اور کیسے بولتے ہیں اور یہ بھی کہ انکے پاس دنوں میں اتنا زیادہ روپیہ پیسہ اورکوٹھی کار کہاں سے آئے ہیں۔ اس وقت تمہارے خیر خواہ کی حیثیت سے تمہیں بھی یہی کہوں گا کہ ملک و قوم کی خدمت اور معاشرے کو سدھارنے جیسی کتابی اور خیالی باتوں سے باہر نکلواور محض اپنا مقام نہیں ایک اچھا سا مکان اور بینک بیلنس بنانے کے بارے میں بھی سوچو۔ فوری طور پر اپنی پی آر بڑھا کرکسی سیاسی و غیر سیاسی دھڑے سے رابطہ کرو،کھل کھلا کر انہیں اپنی قیمت بتائو اوراپنی ’’خدمات‘‘کے بدلے ’’لفافے شفافے ‘‘ یا ’’پلاٹ شلاٹ‘‘لے کرپراپیگنڈہ قسم کے کالم یا ’’گالم ‘‘لکھ کر پڑھنے والوں کو الو بنائو اور اپنا الو سیدھا کرو۔ دوسری صورت میںساری عمر لوگوں کی فضول واہ واہ اورایک تمغے کیلئے اسی طرح دیوار سے اپنا سر پھوڑتے رہو اور ہاں یہ بھی سن لو پچھلے ایک برس سے جس تمغے کے چکر میں تم ’’ہو میو پیتھک‘‘ جیسے بے ضررکالم لکھ رہے ہو وہ تمغہ بھی کم از کم تمہاری زندگی میں تو ملتا دکھائی نہیں دیتا البتہ تمہاری وفات کے بعد کسی کو تم پر ترس آگیا تو ممکن ہے تمہارے نام پر تمہارے بچوں کو یہ تمغہ خیرات میں مل جائے لیکن یاد رکھنا اس تمغے کی خوشی تمہارے بچوں کو ہرگز نہیں ہوگی اس لئے کہ پیٹ بھرنے کیلئے تمغوں کی نہیں روٹی کی ضرورت پڑتی ہے اور سر چھپانے کیلئے اصولوں کی نہیں ایک گھر کی ضرورت ہوتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن