قارئین اسے حقیقت سمجھیں یا مذا ق لیکن رشوت ہے بہت کام کی چیز۔اسکے بغیر وطن عزیز میں کام کم ہی ہوتے ہیں۔دو ذاتی تجربے حاضر خدمت ہیں۔ یہ کئی سال پہلے کراچی کا واقعہ ہے۔ میرا ایک ریٹائرڈ دوست کینٹ کے علاقے میں اپنے ذاتی مکان میں رہائش پذیر تھا۔نیک اور عبادت گزار انسان تھا۔باقی تو اسے زندگی سے کوئی شکایت نہ تھی لیکن بجلی کے بل سے اکثر پریشان رہتا۔اسے شکایت تھی کہ وہ گھر میں اکیلا آدمی ہے ACبھی نہیں چلاتا۔اور بھی زیادہ بجلی خرچ کرنے والی کوئی چیز نہیں لیکن پھر بھی بل بہت زیادہ آتا ہے۔ اسکی آدھی پینشن تو یہ بل کھا جاتا ۔ہم اسکے تدارک کیلئے کوئی سفارش ڈھونڈ رہے تھے کہ اگلے ماہ غیر معمولی طور پر بڑا بل آگیا ۔ہم نے واپڈا کے ذمہ دار آفیسر سے ملنے کا فیصلہ کیا۔دوسرے دن میں نے دفتر سے چھٹی لی۔ سول کپڑوں میں میں اور میرا دوست واپڈا کے دفتر چلے گئے۔ وہاں پہنچ کر سب سے پہلے ہم نے ریسیپشن سے متعلقہ آفیسر کا پتہ کیا ۔پتہ چلا کہ کوئی قدوائی صاحب ہیں۔ انکے دفتر پہنچے تو باہر ایک بزرگ نما شخص بیٹھا اونگھ رہا تھا۔ اسے جگا کر قدوائی صاحب کا پوچھا تو پتہ چلا کہ وہ چھٹی پر ہیں۔ ان سے انکے قائم مقام کا پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ مختار صاحب کے دفتر چلے جائیں ۔پوچھا یہ دفتر کہاں ہے ؟ فرمایا ساتھ والی بلڈنگ میں۔وہاں پہنچے تو پتہ چلا کہ صاحب میٹنگ میں ہیں ۔پوچھا کب فارغ ہونگے؟جواب ملا کم از کم دو گھنٹے تو لگ ہی جائیں گے۔انکےPAسے ملے تو انہوں نے کمال مہربانی سے پوچھا:’’ کیا کام ہے‘‘؟لہٰذا اسے کام کی نوعیت بتائی تو انہوں نے فرمایاآپ اکائونٹس برانچ میں چلے جائیں۔انکے پاس پہنچے تو انہوں نے شاطرانہ انداز میںبات دائیں بائیں کردی۔اب ہم نے واپس جانے سے پہلے فیصلہ کیا کہ بل کی کاپی اور ساتھ لف درخواست قدوائی صاحب کے دفتر میں چھوڑ جاتے ہیں۔جب آئینگے توان سے دوبارہ آکر مل لیں گے۔ واپس قدوائی صاحب کے دفتر پہنچے اور ان کے دفتر رنر کی معرفت درخواست انکے PA کے حوالے کردی۔اب دفتر رنر کو ہم پر تھوڑا رحم آیاتو اس نے کام کی تفصیل پوچھی۔تفصیل سن کر کہنے لگا صاحب آپ مجھے فوجی لگتے ہیں۔جواب دیا جناب آپ درست ہیں۔ لہٰذا جناب نے مزید مہربانی فرماتے ہوئے فرمایاـ:’’صاحب چھوڑیں آپ کن چکروں میں پڑگئے ہیں۔ مجھے اپنے گھر کا پتہ دیں میں شام کو متعلقہ بندے کو آپکے پاس لائونگا۔آپ کا کام ہو جائیگا‘‘۔لہٰذا شام کو وہ متعلقہ آدمی لے آیا۔ پانچ ہزار دے کر یہ بل درست کرایا۔دو ہزار ماہانہ اسکا چائے پانی کا خرچہ مقرر ہوا لیکن اسکے بعد بل جو ہزاروں میں آتا تھا۔ چند سو سے زیادہ کبھی نہ آیا۔دو ماہ تو میرے دوست نے دو ہزار ماہانہ کا جرمانہ ادا کیا بعد میں یہ کہہ کر انکاری ہو گیا کہ وہ رشوت دے کر اپنی قبر انگاروں سے نہیں بھرنا چاہتا۔یاد رہے کہ یہ مارشل لاء کا دور تھا اور مارشل لاء ہیڈ کوارٹر بھی ہمارا ہی دفتر تھا۔
دوسرا واقعہ ملتا ن کا ہے۔ اس واقعہ کو بھی کافی سال بیت چکے ہیں۔ہوا یوں کہ ایک صبح میں گھر سے اپنے دفتر کی طرف آرہا تھا۔سردی کا موسم تھا اور ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی جس سے سڑک پر پھسلن تھی۔جب میں کمشنر آفس کے سامنے پہنچا تو سامنے سے ایک سوزوکی کیری آرہی تھی جو کافی تیز تھی اور سڑک پر دائیں بائیں پھسل رہی تھی۔تیز رفتاری کی وجہ سے اچانک یہ اپنی جانب سے پھری میرے سامنے سے گزر کر فٹ پاتھ کی طرف گئی۔سامنے ایک سائیکل والا مزدور آرہا تھا اسے ٹکر ماری۔آگے فٹ پاتھ پر ایک خاتون نرس جو ساتھ والے ہسپتال سے رات کی ڈیوٹی کر کے گھر جا رہی تھی ۔اسے ٹکر مار کر گرایا اور بالآخر کمشنر آفس کی دیوار سے جا ٹکرائی۔ دیوار وہاں سے ٹوٹ کر گر گئی ساتھ گاڑی بھی رک گئی۔ ڈرائیور مسکراتا ہوا نیچے اترا اور موقعہ سے بھاگ گیا۔میں نے فوری طور پر گاڑی کا نمبر نوٹ کیااور زخمی کو لیکر نشتر ہسپتال پہنچا۔وہاں ڈیوٹی پر بیٹھا ایک نوجوان ڈاکٹر جو اونگھ رہا تھا اسے جگا کر زخمی اسکے حوالے کیا۔ڈاکٹر نے پولیس رپورٹ کے بغیر اسے اٹینڈ کرنے سے انکار کر دیا۔ بہر حال بہت منت ترلے کے بعدڈاکٹر نے مریض اٹنڈ کیا ۔موقع کا واحد گواہ میں تھا۔اب میں نےFIRدرج کرانے کیلئے تھانے سے رابطہ کیا تو جواب ملا کہ یہ علاقہ انکی حدود میں ہی نہیں۔ انہوں نے دوسرے تھانے کا نام لیا۔دوسرے تھانے والوں نے بھی انکار کردیا کہ یہ علاقہ انکی حدود میں بھی نہیں۔پھر میں نےSPکو فون کیا تو تب مقدمہ درج ہوا۔بعد میں سنا کہ وہ زخمی شخص مر گیا جو اپنی بڑی فیملی کا واحد کفیل تھا اور خاتون ایک ٹانگ سے محروم ہو گئی۔ کیس چلا۔بطور گواہ مجھے دو دفعہ بلایا گیا لیکن دونوں دفعہ متعلقہ مجسٹریٹ دفتر میں موجود نہ تھا۔لہٰذا نئی تاریخیں مل گئیں۔
ایک دن میں اپنے دفتر میں بیٹھا تھا کہ ڈرائیور چند معززین کو لے کر میرے پاس آیا اور سب نے مل کر دبائو ڈالا کہ ڈرائیور کو معاف کر دیں۔میں نے سب سے پوچھا کہ اگر مرنے والا آپکا عزیز ہوتا تو آپ کیا کرتے ؟ سب نے جواب دیا کہ چھوڑیں محترم اس غریب آدمی نے کوئی جان بوجھ کر تو اسے نہیں مارا۔ مزید یہ کہ اس آدمی کو سزا یا پھانسی ملنے سے وہ زندہ تو نہیں ہو جائیگا۔ بس اسکی زندگی ہی اتنی تھی مر گیا۔ جب میں نہ مانا تو ڈرائیور گویا ہوا :’’ چھوڑیں جی آپ خواہ مخواہ فوجیوں والی ضد کررہے ہیں۔کر لیں جو کچھ کرنا ہے۔‘‘ وہ اٹھ کر چلے گئے۔بعد میں نہ کسی نے مجھے بلایا ،نہ پوچھا۔سنا کہ اس نے ریڈر کو ایک لاکھ روپیہ دے کر شاید فائل ہی غائب کرا دی تھی۔لہٰذا رشوت زندہ باد۔ یاد رہے کہ ایسے کیسز اب روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔