رمضان قرآن اور ایمان 

رمضان المبارک ہماری زندگی میں ایک مرتبہ پھر ہم پر سایہ فگن ہورہاہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق بخشے کہ ہم اسکی رضا کیلئے کامل یکسوئی اور ایمان و احتساب کے ساتھ روزے رکھیں۔ آنحضرتﷺ کا فرمان ہے کہ!ــ’’ ہوشیار اور عقل مند وہ ہے جو اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور اپنا ہر عمل آخرت کی نجات و کامیابی کو سامنے رکھتے ہوئے کرے جبکہ وہ نادان اور بے وقوف ہے جو اپنے آپکو خواہشاتِ نفس کا تابع کردے اور بجائے احکام خداوندی کے اپنے نفس کے تقاضوں پر چلے اور پھر اللہ سے اُمیدیں باندھے۔‘‘ حدیث قدسی ہے نبی مہربانﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ،’’ہلاک ہوگیا وہ شخص جس نے رمضان کو پایا اور اللہ کی عبادت کرکے خود کو جہنم سے آزاد ی کا مستحق نہ بناسکا۔رمضان المبارک سیدالشہور(تمام مہینوں کا سردار مہینہ) ہے۔ اس لیے اس کی شان و شوکت کیمطابق اسکی آمد سے کما حقہ، استفادہ کرنے کیلئے ٹھوس منصوبہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ رمضان کی پہلی رات اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتے آسمان دنیا پر آتے ہیں اور منادی کرتے ہیں کہ اے اللہ کی رضااور خوشنودی کے طالب ،آگے بڑھ اور اللہ کو راضی کرلے ،اور اے اللہ کے نافرمان ،ماہ مبارک کی عزت و وقار کو دیکھ اور حیا کراور اپنے گناہوں سے باز آجائو۔رمضان المبارک میں ہر کام کاا جروثواب ستر گنا بڑھ جاتا ہے۔ قرآن کے مطالعہ یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ اس مہینہ میںقرآن مجید نازل ہوا ہے جس میں مسلمانوں کو مکمل ضابطۂ حیات اور نظامِ زندگی عطا کیا گیا ہے لہٰذا رمضان میں بڑے پیمانہ پر قرآن کی تلاوت ترجمہ و تفہیم اورتراویح میں مکمل قرآن کے سننے کا اہتمام کیا جانا چاہئے۔
روزہ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کا اہم ترین ذریعہ ہے ۔اسی لئے پہلی امتوں پر بھی روزے کسی نہ کسی طریقے سے فرض رہے ہیں جس کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ ’’اے ایمان والو !تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسا کہ پہلی امتوںپر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔سابقہ انبیاء کی شریعتوں میں بھی روزے کی عبادت موجود تھی ۔ یہودی ،عیسائی،ہندو اور سکھ سب ہی اپنے اپنے انداز سے روزے رکھتے ہیں۔
روزے کا ایک اہم ترین مقصد معاشرے میں موجود غربا و مساکین اور نادار وں کی بھوک پیاس اور ضروریات کا احساس دلانا بھی ہے جو سارا سال غربت اور تنگ دستی کی وجہ سے بھوک برداشت کرتے ہیں۔بیوائوں اور یتیموں کی کفا لت کی طرف توجہ دلانا ہے جن کی بے چارگی انہیں ہروقت مجبور و محروم رکھتی ہے ۔اسی لئے فرمایا کہ کسی کا روزہ افطار کروانے والے کو ایک روزے کیمطابق اجر وثواب ملے گاخواہ وہ ایک کھجور اور پانی کے گھونٹ سے ہی کیوں نہ افطار کروایا جائے اور افطار کرنے والے کے اجرو ثواب میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی اس لئے اپنے ارد گرد ایسے افراد کی طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے جوروزے تو رکھتے ہیں مگر انہیں سارادن یہ فکررہتی ہے کہ آج پکائیں گے کیا اور کھائیں گے کیا ۔؟ انکے معصوم بچے بھی چاہتے ہیں کہ افطاری کے وقت ان کی کوئی پسندیدہ چیز کھانے کو مل جائے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو بھوکے کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دلاتا اور یتیم کو دھکے دیتا ہے وہ دین کو جھٹلاتا اور قیامت کے دن کا انکار کرتا ہے ۔اسی حضور ﷺ نے فرمایا کہ وہ مسلمان نہیں ہوسکتا جو خود تو پیٹ بھر کرکھائے اور اس کا ہمسایہ بھوکا رہے ۔ صلحائے امت نے دائیں بائیں اور آگے پیچھے کے چالیس گھروں کو ہمسایہ قرار دیا ہے ۔اگر ہر فرد اپنے اردگرد کے ضرورت مندوں اورحاجت مندوں کی خبر گیری اور حاجت روائی کرے تو ہمارا معاشرہ محبت و اخوت اور ہمدردی و بھائی چارے اپنی مثال آپ بن سکتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے رمضان المبار ک میں اسلام اور مسلمانوں کو ہمیشہ فتح و نصرت اور عزت و وقار سے سرفراز فرمایا ہے ،غزوہ بدر جسے یوم الفرقان بھی کہا گیا ہے وہ 17رمضان المبارک کو ہوا اور اللہ تعالیٰ نے کفر کے غرور کو ہمیشہ کیلئے خاک میں ملادیا۔فتح مکہ رمضان المبارک آٹھ ہجری میں ہوئی اور بیت اللہ ہمیشہ کیلئے مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا ۔ 10رمضان المبارک کو محمد بن قاسم ؒ کے ہاتھوں سندھ فتح ہوا اور برصغیر میں اسلام کا پرچم لہرایا۔ برصغیر کے مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے پاکستان کی نعمت 27رمضان المبارک کو عطا کی۔اسی طرح اسلام کی تاریخ کو پڑھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی کے اکثر واقعات رمضان المبارک میں پیش آئے ۔ 
حکومت اپنے تین سالہ دور میں مہنگائی پر قابو پانے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے ۔ان اڑھائی تین سالوں میں ہر چیز کی قیمتوں میں کئی کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے ۔گزشتہ سال آنیوالے آٹے اور چینی کے بحران پر اب تک قابو نہیں پایا جاسکا اور چینی مافیا نے مارکیٹ سے چینی غائب کردی ہے ۔پھل اور سبزیاں توعام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوچکی ہیں۔اب تو غریب دال روٹی بھی نہیں کھا سکتا کیونکہ دالیں بھی گوشت کی قیمت میں مل رہی ہیں۔حکومت عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے سستے بازار بھی لگاتی ہے جہاں کئی کئی دنوںکی باسی سبزیاں اورخراب اور گلے سڑے پھل بھی منہ مانگے داموں بک جاتے ہیں ۔ حکومتی کارندے دکانداروں سے اپنا کمیشن لیکر غائب ہوجاتے اور دکانداروں کو عوام کی جیب پر ڈاکہ ڈالنے کی کھلی چھوٹ دے دی جاتی ہے ۔مہنگائی نے غریب کیلئے روزے جیسی عبادت بھی مشکل بنادی ہے ۔
حکومت اگر واقعی رمضان المبارک میں غریبوں کو ریلیف دینا چاہتی ہے تو اسے فوری طور پر آٹا ،چینی ،گھی اور دالیں خود خرید کر غریب بستیوں ،دیہاتوں ،گوٹھوں اور شہروں کے پسماندوں علاقوں میں عوام کو سستے داموں فروخت کرنی چاہئیں ۔ہر سال حکومت کی طرف سے اربوں روپے کی سبسڈی کے اعلانات ہوتے ہیں ،وہ اربوں روپے قومی خزانے سے نکل جاتے ہیں مگر کہاں جاتے ہیںکسی کو معلوم نہیں ہوتا ،غریب اسی طرح مہنگی چیزیں خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ دودھ کی قیمتوں میں کمی بہت ضروری ہے ۔اسی طرح سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں کوکنٹرول کرنے کی ضرورت ہے ۔رمضان جو اللہ سے ڈرنے اور اس کا تقویٰ اختیار کرنے کا درس دیتا ہے ،ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خور وں نے اس ماہ مبارک کو لوٹ کھسوٹ کا مہینہ بنا لیا ہے۔ حکومت اگر چند شہروں سے بڑے بڑے ذخیرہ اندوزوں، نامی گرامی منافع خوروں اور عوام کا خون نچوڑنے والوں کو پکڑ کر حوالاتوں میں بند کردے تو چند دن کے اندر مہنگائی پر قابو پایاجاسکتا ہے ۔ 

ای پیپر دی نیشن